مقبوضہ جموں و کشمیر

بی بی سی نے بھارت میں خواتین کے ساتھ رواشرمناک سلوک سے پردہ ہٹادیا

نئی دلی 26 اگست (کے ایم ایس )
بھارت میں عصمت دری کا نشانہ بننے والی ایک 24سالہ خاتون کی خودسوزی نے ایک بار پھر ملک میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانیوالے ظالمانہ سلوک کواجاگر کیا ہے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک اداریہ میں کہاگیا ہے کہ مذکورہ بھارتی خاتون نے یک رکن پارلیمنٹ کے ایما پرپولیس اور عدلیہ کی طرف سے مبینہ طورپر ہراساں کئے جانے کے بعد خود کو آگ لگا کر خودسوزی کرلی تھی ۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق خاتون اور اسکے ایک مرد دوست نے درالحکومت نئی دلی میں بھارتی سپریم کورٹ کے باہرسولہ اگست کو فیس بک پرایک لائیو پروگرام میں خود پرتیل چھڑک کر آگ لگالی تھی۔ انہیں ہسپتال لے جایاگیا۔خودسوزی کرنے والا مرد ہفتہ کے روز جبکہ خاتون منگل کی شام کو دم توڑ گئے ۔ خاتون نے بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اتل رائے پر وارانسی شہر میں اپنے گھر پر اسے زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا تھا اور مئی 2019 میں اس نے ایم پی کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔مذکورہ رکن پارلیمنٹ کو ایک ماہ بعد گرفتار کیاگیا تھا اور وہ گزشتہ دوبرس سے جیل میں تھا۔ ایم پی کے بھائی نے گزشتہ سال نومبر میں خاتون پر جعل سازی کا الزام لگاتے ہوئے پولیس کوایک شکایت درج کرائی تھی ۔ رواں ماہ کے آغاز میں عدالت نے خاتون کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔ فیس بک لائیو کی ویڈیو ریکارڈ میں خاتون کو خودسوزی سے قبل بھارتی رکن پارلیمنٹ پر اسے ہراساں کرنے کیلئے اثر و رسوخ استعمال کرنے کا الزام لگایا۔انہوںنے متعد د پولیس افسروں اور ایک جج کا نام لیا اور ان پر اتل رائے کا ساتھ دینے کا الزام لگایاتھا۔ انہوںنے کہاتھا کہ حکام نومبر 2020سے انہیں مرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ خودسوزی سے چند لمحات قبل ان کا کہنا تھا کہ جو اقدام و ہ اٹھانے جارہی ہیں ا س پر وہ خوفزدہ ضرور ہیں تاہم یہ خوف بے معنی ہے ۔
واضح رہے کہ بھارت میں خواتین سے زیادتی اور جنسی جرائم عام بات ہے اور عالمی برادری کی خواتین کے خلاف وحشیانہ جنسی جرائم پر توجہ دسمبر 2012 سے مسلسل مرکوز ہے جب نئی دلی میں ایک بس میں چھ افراد نے ایک نوجوان طالبہ کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد چلتی بس سے نیچے پھینک دیا تھا جو کچھ دن بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھی۔اس واقعے پر دنیا بھر میں بھارت کو بڑی شرمندگی اور تنقیدکاسامناکرنا پڑاتھا۔ KMS-16/Y

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button