بھارتی فوجیوں نے سال 2023میں 120کشمیری شہید کردیے
سرینگریکم : غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں میں سال 2023کے دوران چار خواتین اور چار کمسن لڑکوں سمیت 120بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق شہید ہونے والوں میں سے 41کو جعلی مقابلوں اور دوران حراست شہید کیاگیا۔بھارتی پولیس نے ایک ہندو کو بھی جموں کے جوڑیاںتھانے میں دوران حراست قتل کر دیا اور ایک اور ہندو کو بھارتی فوجیوں نے ضلع جموں کے علاقے شوارا کھور اکھنور میں قتل کر دیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں،پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں شہادتوں کے نتیجے میں 18خواتین بیوہ اور 58بچے یتیم ہو گئے جبکہ بھارتی فورسز نے 7خواتین کی بے حرمتی کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فورسز نے علاقے میں 13رہائشی مکانات اور عمارات کو تباہ کر دیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ طاقت کے وحشیانہ استعمال اور تشدد سے کم از کم 107 افراد زخمی ہوئے جبکہ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے گھروں پر چھاپوں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما بلال صدیقی، شبیر احمد ڈار، فردوس احمد شاہ ،جہانگیر غنی بٹ، سلیم نناجی، سجاد حسین گل، محمد یاسین بٹ ،شمس الدین رحمانی، عمر عادل ڈار، مولانا سرجان برکاتی، حسن فردوسی، صحافی عرفان معراج اور ماجد حیدری، طلبائ، کمسن لڑکوں اور خواتین سمیت 3610افرادکوگرفتار کیاہے۔ ان میں سے کئی کوپبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔بھارتی حکام نے مقبوضہ علاقے میں شب برات، شب قدر اور عید میلاد النبی ۖ جیسی مذہبی تقریبات کی اجازت نہ دینے کے علاوہ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں لوگوں کو 11مرتبہ نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔.رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزاحمتی رہنما جن میںکل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف اور انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز شامل ہیں، جعلی مقدمات میں دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ مشتاق الاسلام، مولوی بشیر احمد، ظفر اکبر بٹ، ڈاکٹر حمید فیاض، محمد یوسف فلاحی، محمد رفیق گنائی، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، غلام قادر بٹ، ڈاکٹر شفیع شریعتی، شوکت حکیم، اسد اللہ پرے، معراج الدین نندا، حیات احمد بٹ، فیروز احمد ڈار اور نور محمد فیاض سمیت 4000سے زائد کشمیری پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قوانین کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیراور بھارت کی مختلف جیلوں میں نظر بند ہیں۔کم از کم 14کشمیری سرکاری ملازمین کو بی جے پی حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کی حمایت کرنے پر ملازمت سے معطل یا برطرف کردیا ہے جبکہ کم از کم 72 جائیدادیں جن میں زرعی اراضی، مکان اور دکانیں شامل ہیں ،مودی حکومت نے ضبط کرلیں تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھارت کی طرف سے تسلیم شدہ حق خودارادیت کے مطالبے کے لیے لوگوں کی آواز کو خاموش کرایاجائے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف دسمبر 2023کے مہینے میں بھارتی فوجیوں نے 7کشمیریوں کو شہید کیا اور ان میں سے 3کو دوران حراست شہید کیاگیا۔اس ایک ماہ میں خواتین سمیت کم از کم 97 نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 5 اگست 2019کو جب نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کردی، تب سے اب تک بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں نے 852کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ علاقے میں گزشتہ 35سال کے دوران 96ہزار285کشمیری بھارتی گولیوں کا نشانہ بنے یا ماورائے عدالت قتل کئے گئے۔