بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کا افتتاح:مسلمانوں میں خوف و دہشت
نئی دہلی:بھارت بھر میں خاص طور پرریاست اتر پردیش میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جہاں ایودھیا میں شہیدکی گئی صدیوں پرانی بابری مسجد کے مقام پر وزیر اعظم نریندر مودی ایک سیاسی چال کے تحت آج سرکاری سرپرستی میں دھوم دھام سے رام مندر کا افتتاح کر رہے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق چونکہ مندر کی تعمیر کئی دہائیوں سے بی جے پی کی انتخابی سیاست کا حصہ ہے، اس لیے سابق کثیر ثقافتی مرکز کے مسلمان باشندوں نے ہندوتوا کے ہجوم کے حملوں کے خوف سے اپنے بچوں اور خواتین کو پڑوسی قصبوں میں رشتہ داروں کے پاس بھیج دیا ہے۔6 دسمبر 1992کو ایک ہندو ہجوم نے ایودھیا میں 16ویں صدی کی بابری مسجد کو اس جھوٹے دعوے پر مسمار کر دیا تھا کہ مسلمانوں نے اسے ایک قدیم مندر کی جگہ پر بنایا تھا۔ مسجد کی شہادت کو ہندوتوا کے حامی فتح کے دن کے طور پر مناتے ہیںجبکہ مسلمانوں کے لیے یہ دہشت گردی کا دن تھا۔ 2014 میں جب سے مودی کی بی جے پی حکومت برسراقتدار آئی ہے،بھارت سے مسلمانوں یا اسلامی تہذیب کے تمام نشانات کو مٹانا مودی حکومت کا بنیادی مقصد بن گیا ہے۔ بھارتی فورسز 1990کی دہائی کے آخر سے اس متنازعہ مقام کی حفاظت پر مامور ہیں۔ ریاستی فورسزکو جن میں یوپی پولیس اور پی اے سی کے 1,400اہلکار شامل ہیں ،مندر کے بالکل باہر ریڈ زون میں تعینات کیاگیا ہے۔سکیورٹی کے لئے مصنوعی ذہانت، ڈرونز اور سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ایک مقامی مسلم تنظیم نے مقامی حکام کو درخواست دی جس میں بڑی تعداد میں مسلم آبادی والے علاقوں کے ساتھ ساتھ ایودھیا کے دیگر حصوں میں سخت سیکورٹی اور چوکسی کا مطالبہ کیا گیا جنہوں میں 1992میں بابری مسجد کے انہدام اور فرقہ وارانہ تشددکو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔افتتاحی تقریب میں مدعو کی گئی شخصیات میں فلمسٹار امیتابھ بچن، رنبیر کپور، رجنی کانت، کنگنا رناوت، مادھوری دکشٹ، اکشے کمار، انوشکا شرما اور ان کے شوہرکرکٹر ویرات کوہلی شامل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندو فرقوں کے کچھ سینئر مذہبی رہنما اس تقریب کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ دیوبند مسلم مدرسہ کے صدر ارشد مدنی نے بھی ایک انٹرویو میںایسا ہی خدشہ ظاہر کیا۔ ایودھیا شہر میں رہنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ پریشان ہیں۔مسلمانوں کی جانب سے پولیس کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایودھیا شہر میں ہندو اور مسلمان امن کے ساتھ رہتے ہیں لیکن ماضی میں مختلف تقریبات میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے مسلم کمیونٹی کو جان، مال اور مذہبی مقامات کا نقصان اٹھاناپڑا ہے۔دی ہندو نے کہا کہ ضلع ایودھیا میں تقریبا 25لاکھ باشندوں میں 14.8فیصد مسلمان ہیں۔ مندر کے ارد گرد چار کلومیٹر کے دائرے میں تقریبا 5000مسلمان رہتے ہیں۔ ایودھیا میں سنی سنٹرل وقف بورڈ کی ذیلی کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ کچھ مسلمانوں نے اپنے بچوں اور خواتین کو لکھنو، بارہ بنکی یا دیگر قریبی اضلاع میں رشتہ داروں کے گھر بھیج دیا ہے کیونکہ وہ 1990اور 1992کے مسلم کش فسادات کے پیش نظر انتظامیہ پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔65سالہ انوری بیگم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسجد کی تباہی کا منظر پیش کیااور کہاکہ سارے ایودھیا میں لاکھوں لوگ موجود تھے۔ ان کے پاس لاٹھیاں، تلواریں اور ترشول تھے۔ ہمارا گھر ان سے گھرا ہوا تھا۔ہم اپنے گھروں سے بھاگ گئے، میں اپنے چھ ماہ کے بچے اوردیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ بھاگ گئی، میرے شوہر ہمارے پیچھے بھاگ رہے تھے۔انہوں نے کہاکہ جب میں مڑی تو دیکھا کہ میرے شوہرکو کچھ آدمیوں نے پکڑ لیا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے لیے بھاگتے رہنا پڑا۔اگلے دن مجھے پتہ چلا کہ میرے شوہر محمد امین کو قتل کر دیا گیا ہے جوان 17مسلمانوں میں سے ایک تھے جو اس دن ایودھیا میں قتل کئے گئے تھے۔