مقبوضہ جموں وکشمیر:مودی حکومت کی طرف سے مسلم مقامات کے ناموں کی تبدیلی کا سلسلہ جاری
سرینگر میںبھارتی پیرا ملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی مزید کمپنیاں تعینات
سرینگر 07 نومبر (کے ایم ایس)بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت رہنماو¿ں اور تنظیموں نے مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کی شناخت کو مکمل طور پر چھیننے کے لیے تعلیمی اداروں، سڑکوں اور دیگر تاریخی عمارتوں اور مقامات کے نام تبدیل کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق حریت رہنماوں اور تنظیموں نے سرینگر میں اپنے بیانات میں کہا کہ مودی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ تاریخی مقامات کے نام ہندو رہنماﺅں کے نام پر رکھ کرتنا زعہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل اور کشمیریوں کو جائز جدوجہد سے باز رکھنے پر مجبور کر سکتی ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہی ہے۔
حریت رہنما خواجہ فردوس نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوتوا حکومت کشمیری عوا م کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے اہم کشمیری مقامات کے نام بے گناہ کشمیریوں کے قاتلوں کے نام پر رکھ رہی ہے ۔ بھارتی حکومت نے ایسے ہی ایک تازہ اقدام میں کولگام میں ایک سرکاری کالج کا نام تبدیل کر کے درجنوں کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث ایک بدنام زمانہ پولیس افسر کے نام پر رکھا ہے۔ انہوں نے بھارت سے کہا کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ لے اور تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کی راہ ہموار کرے۔
بھارتی فوجیوں نے ضلع شوپیاں کے علاقے ہرمین میں اندھا دھند فائرنگ کر کے ایک کشمیری نوجوان کو زخمی کر دیا۔
دریں اثنا بھارتی حکومت نے آزادی کے مطالبے کو وحشیانہ طریقے سے دبانے کے لیے بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی مزید پانچ کمپنیا ں سرینگر میں تعینات کر دی ہیں ۔ بھارتی پیرا ملٹری اہلکاروں نے رہائش کے لیے شہری علاقوں میں تعلیمی اداروں اور شادی ہالوں پر قبضہ جما لیا ہے۔
جموں اور پونچھ کے مختلف علاقوں میں دیواروں اور بجلی کے کھمبوں پر نومبر 1947 شہدائے جموں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پوسٹر چسپاں کیے گئے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسٹ )کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے ایک بیان میں کہا کہ سری نگر اور وادی کے دیگر علاقوں میں وقفے وقفے سے انٹرنیٹ بند کرنے کے حکام کے فیصلے نے 5 اگست 2019 کو مودی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ مواصلاتی بندش کی دردناک یادیں تازہ کر دی ہیں۔
ادھر آزاد سکھ وطن کے لیے رائے شماری کا دوسرا مرحلہ آج لندن میں شروع ہوا۔ پہلا مرحلہ بھی 31 اکتوبر 2021 کو لندن میں منعقد ہوا تھا جس میں 30ہزار سے زیادہ سکھوں نے ایک علیحدہ وطن کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ ریفرنڈم کے مزید دو مراحل 14 اور 21 نومبر کو دیگربرطانوی شہروں میں ہوں گے۔ بعد ازاں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اوربھارتی پنجاب کے علاقے میں بھی رائے شماری کا انعقاد کیا جائے گا۔ خالصتان ریفرنڈم کے نتائج کو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا تاکہ سکھ وطن کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ سیاسی ماہرین نے کہا ہے کہ لندن میں سکھ ریفرنڈم کے انعقاد کو مودی کی قیادت میں بھارت کی شکست سمجھا جا رہا ہے کیونکہ وہ تمام سیاسی حربے آزمانے کے باوجود اسے روکنے میں ناکام رہا ہے۔