مظفرآباد:بھارت کشمیری خواتین کی آبرویزی کو جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہاہے ، مقررین
مظفرآباد: آزاد جموں وکشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد میں منعقدہ ایک سیمینار کے مقررین نے کہا ہے کہ بھارت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کیلئے خواتین کی آبروریزی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
سیمینار کا انعقاد انٹرنیشنل فورم فار جسٹس ہیومن رائٹس نے کنن پوشپورہ اجتماعی آبروزیری واقعے کے 33برس پورے ہونے کے موقع پر کیا تھا۔ ہائیر سیکنڈری سکول سہیلی سرکار میں منعقدہ سیمینار کی صدارت فورم کے نائب چیئرمین مشتاق الاسلام نے کی جبکہ مہمان خصوصی وزیر حکومت آزاد جموںو کشمیر امتیاز نسیم تھیں۔ سیمینار سے ڈائریکٹر لبریشن سیل راجہ سجاد لطیف خان، پاسبان حریت کے نائب چیئرمین عثمان علی ہاشم، پرنسپل ہائیر سیکنڈری سکول عامرہ یوسف، مسلم کانفرنس کی راہنما سمیعہ ساجد، مسلم لیگ ن خواتین ونگ کی راہنما سائرہ چشتی، مائرہ خان، حمیرہ الطاف، عائشہ ایمان، فاریہ اسلم، آمنہ طارق نے خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کہ کشمیری خواتین کی تحریک آزادی میں جدوجہد لازوال ہے اور وہ تمام تر بھارتی جبرواستبداد کے باوجود چٹان کی طرح کھڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری خواتین نے تحریک آزادی میں جہاں اپنی عزتوں کی قربانی دی وہیں انکے شوہر، بیٹے اور بھائی شہید ہوئے۔ مقررین نے کہا کہ کنن پوشپورہ اجتماعی آ برویزی کے المناک سانحے کی متاثرہ خواتین کو 33برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی انصاف نہیں ملا اور مجرم بھارتی فوجی آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ مقررین نے کشمیری اسیر خواتین آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی اور دیگر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قوم کی حوصلہ مند خواتین آزادی کے لئے عظیم قربانیاں پیش کررہی ہیں۔ مقررین نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں خواتین پر مظالم کا نوٹس لیں۔
سیمینار میں شریک شرکاءنے بعد ازاں بھارتی مخالف احتجاجی ریلی بھی نکالی۔ ریلی کے شرکاءنے ”انصاف دو انصاف دو کنن پوش پورہ کی خواتین کو انصاف دو، کشمیری خواتین پر ظلم و ستم بند کرو بند کرو،بھارتیو غاصبو جموں کشمیر چھوڑ دو ، ہم کیا چاہتے آزادی ۔“کے فلک شگاف نعرے لگائے۔بھارتی فوجیوں نے 23 فروری 1991 کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران آٹھ سے اسی سال کی عمر کی تقریباً 100 خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی تھی۔