برطانوی اخبارنے بھارتی عدلیہ کی آزادی پر نئی بحث چھیڑ دی
لندن: برطانوی اخبار”دی اکانومسٹ” میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ نے بھارتی عدلیہ کی آزادی پر خاص طور پر مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بارے میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور گجرات میں 2002کے مسلم کش فسادات کے کیس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بریت کے پیش نظرایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ”بھارتی سپریم کورٹ کی آزادی کا جائزہ ” کے زیر عنوان رپورٹ نے ماہرین قانون، سرکاری افسران اور عام لوگوں میں بحث چھیڑ دی ہے۔دی اکانومسٹ کے تجزیے میں بھارتی سپریم کورٹ کی آزادی کے حوالے سے کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میںاس بات پر شدید تشویش کا اظہارکیاگیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کو چیلنج کرنے میں عدالت ہچکپچارہی ہے، خاص طور پر ایسے مسائل پر جنہیں معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ میں ان مخصوص مقدمات کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے جہاں حکومت کے ایجنڈے کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا جائزہ لیاگیا ہے۔ قابل ذکر مثالوں میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کی منظوری اور 2002کے گجرات فسادات کے انتہائی متنازعہ کیس میں وزیر اعظم مودی کو بری کرنا شامل ہے۔اپنے تجزیے میں دی اکانومسٹ نے بھارتی عدلیہ کو درپیش تاریخی چیلنجو ں کو تسلیم کیا ہے خاص طور پر اندرا گاندھی کے ایمرجنسی دور جیسے سیاسی انتشار کے دوران۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ عدالت کی جانب سے اپنے اختیار کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں کے باوجود ر بنیادی خامیاں اور سیاسی دبائو اس کی آزادی کو مسلسل کمزور کر رہے ہیں۔دی اکانومسٹ نے ”عدالتی اجتناب” کی مثال دے کر اپنی دلیل کو مزید واضح کیا۔ اس سے مراد شہریت ترمیمی قانون سے متعلق اہم مقدمات کی سماعت میں تاخیر اورعمرخالد جیسے کارکن کی قانونی درخواستوں کو واپس لینا ہے جس سے متنازعہ مسائل کا سامنا کرنے کے لیے عدالت کی رضامندی پر سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں عدالت کی آزادی سے متعلق پیچیدگیوں اور ملک کے جمہوری اداروں پر اس کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کھلے مکالمے اور مختلف زاویوں سے جامع تجزیے پر زوردیاگیاہے۔