مودی حکومت کی پالیسیوں کے ناقد کشمیری صحافیوں کو بار بار گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے : بی بی سی
سرینگر:بھارت کی جیل میں 2ہزاردنوں سے زائد عرصے سے قید کشمیری صحافی آصف سلطان کی رہائی کے چند گھنٹوں بعد دوبارہ گرفتاری کے بارے میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی پالیسیوں کے ناقد کشمیری صحافیوں کو بار بار گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق بی بی سی کی تازہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 29فروری کو آصف سلطان جیل سے رہائی کے بعداپنے گھر واپس پہنچا ہی تھا کہ اسے مقامی پولیس اسٹیشن کی طرف سے طلب کرلیا گیا۔جہاں بعد ازاں آصف کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔آصف سلطان کوعسکریت پسندوں کو پناہ دینے کے جھوٹے الزام میں2018میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیاتھا۔انہوں نے معروف کشمیری نوجوان رہنما شہید برہان مظفر وانی کے حق میں ایک مضمون بھی لکھا تھا۔ یہ مضمون بھی انکی گرفتار ی کا سبب بنا تھا۔ گرفتاری کے بعد ان پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق آصف سلطان کو بھارتی ریاست اترپردیش کی ایک جیل سے پانچ سال کی غیر قانونی نظربندی سے رہائی کے بعد سرینگر کے علاقے بٹہ مالو میں اپنے گھر پہنچنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد دوبارہ گرفتار کیا گیاتھا۔رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموںوکشمیر ہائی کورٹ نے آصف سلطان کو 2021میں کالے قانون یو اے پی اے کے تحت درج مقدمے میں ضمانت پر رہاکرنے کا حکم جاری کیاتھا تاہم بھارتی انتظامیہ نے انہیں رہا کرنے کے بجائے انہیں ایک اور کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیکر اتر پردیش کے ضلع امبیڈکر نگر کی جیل منتقل کردیا۔مقبوضہ علاقے کی ہائیکورٹ نے گزشتہ برس 11 دسمبر کو انہیں کالے قانون پی ایس اے کے تحت قائم مقدمے میں بھی ضمانت دی تھی لیکن قابض انتظامیہ نے انہیں ڈھائی ماہ بعد رہا کیا اوررہائی کے دو دن بعد ایک اور جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیری صحافی آصف کی پانچ سال کی غیر قانونی نظربندی سے رہائی کے فورا بعد دوبارہ گرفتاری سے مقبوضہ علاقے کے صحافیوں کو درپیش شدید مشکلات کی عکاسی ہوتی ہے ۔اگست 2019میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے کشمیری صحافیوںکو مودی حکومت کی طرف سے سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ کشمیر میں میڈیا کی آزادی کے بارے میں موجود خدشات کے دوران سلطان کی دوبارہ گرفتاری ایک پریشان کن رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ اگست 2019کے بعد سے مقبوضہ کشمیرمیں کم سے کم 5 صحافیوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں جبکہ 3صحافیوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قانون کے تحت گرفتارکیاگیا ہے ۔