مقبوضہ جموں وکشمیرمیں پاکستانی نژاد خواتین کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا
سرینگر: کشمیری نوجوانوں سے شادی کرنے والی تقریبا 350پاکستانی خواتین کو غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کے امتیازی قوانین کی وجہ سے غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ خواتین جو کئی دہائیاں قبل بحالی پروگرام کے تحت اپنے کشمیری شوہروں کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر گئی تھیں،بری طرح پھنس چکی ہیں اوراب ان کے پاس نہ تو سفری دستاویزات ہیں اورنہ پاکستان میں اپنے خاندانوں کے پاس واپس جانے کی اجازت ہے۔ ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار” سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ” نے اپنی تازہ رپورٹ میں ان خواتین کی حالت زارکو اجاگر کیا ہے۔ اخبار کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے ان خواتین کے حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ انہیں شہریت نہ دینے سے مساوات اور عدم امتیاز کے ان کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا اور انہیں اپنے خاندانوں کے پاس واپس جانے سے روکنا ان کے نقل و حرکت کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ اخبارنے کہاہے کہ ان کی قانونی حیثیت اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے وہ ذہنی طور پریشان اور اضطراب کا شکار ہیں۔