آگرہ کی تاریخی جامع مسجد بھی ہندوانتہا پسندوں کے نشانے پر، ہندو بھگوان کی مورتی کے نشان کا دعویٰ
پریاگ راج :دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے دعویدار بھارت میں مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے اور مسلمانوں کے تاریخی مقاما ت خصوصا مساجد ہندوئوں کے مندوں پر تعمیر کئے جانے کا پروپیگنڈہ کر کے مساجد کو متنازعہ بنانے کاسلسلہ جاری ہے
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق تازہ پیش رفت میں بھاررتی ریاست اتر پردیش کی الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ آگرہ کی تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ہندو بھگوان کرشن کی مورتی کے نشان موجود ہیں۔درخواست میںآرکیالوجیکل سروے آف انڈیاکے ذریعے جامع مسجد کا سروے کرانے اور ایڈووکیٹ کمشنر کے تحت تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ہائی کورٹ کے جج جسٹس مینک کمار جین کی عدالت میں ہندو فریق کے وکیل مہیندر کمار سنگھ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ مسلمانوں کی طرف سے عیدگاہ کمیٹی نے اس کیس میں فریق بننے کے لیے عدالت میں درخواست جمع کرائی ہے۔درخواست میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے 1670 میں آگرہ کے ایک مندر کو گراکر اسکی جگہ جامع مسجد تعمیر کروائی تھی اور مندر کے مرکزی حصے میں موجود ہندو بھگوان کرشن کی مورتی کو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر چنوا دیا تھا۔ درخواست میں مزید کہاگیاہے کہ مغل شہنشاہ نے ہندوئوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے ایسا کیاتھا۔درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہندو بھگوان کی مورتی کو جامع مسجد سے ہٹا کر کرشن کی جائے پیدائش متھرا میں دوبارہ نصب کیا جائے۔عیدگاہ کمیٹی کے وکیل نے اس سلسلے میں اپنا جواب پیش کرنے کیلئے عدالت سے مہلت مانگی ہے ۔عدالت نے مقدمے کی آئندہ سماعت 5 اگست تک ملتوی کر دی ہے ۔