بھارت:ہندووں کی یاترا کے دوران دکانوں کے باہر نام لکھنے کا حکم ، مسلمانوں کو الگ کرنے کی کوشش
لکھنو: بھارتی ریاستوں اترپردیش اور اتر کھنڈ میں ہندووں کی سالانہ کانوڑ یاترا کے لیے مختص راستوں پر دکانداروں اور کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کو دکانوں پر اپنے نام جلی حروف میں لکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔اتر پردیش میں یہ حکم پہلے مغربی علاقے مظفر نگر کے لیے جاری ہوا تھا اور جب اس پر ہر طرف سخت تنقید ہوئی تو ریاست کے بی جے پی وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اسے واپس لینے کے بجائے جمعے کو اسے پوری ریاست میں نافذ کر دیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کانوڑ یاترا ہندوو¿ں کی ایک سالانہ یاترا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں ہندو شریک ہوتے ہیں۔یہ یاترا ہر سال ساون کے مہینے میں منعقد ہوتی ہے۔ کل 22 جولائی سے شروع ہونے والی یہ یاترا چھ اگست تک جاری رہے گی۔ اتر پردیش کی طرز پر اتر کھنڈ میں بھی ہوٹلوں، ڈھابوں اور سڑکوں پر کھانے پینے کی اشیا بیچنے والوں کو اپنے نام ظاہر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔اتر پردیش کی یوگی حکومت کو اس اقدام پر سخت تنقید کا سامنا ہے ۔کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے جاری حکمنامہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایکس پر لکھا”ہمارا آئین ہر شہری کو ضمانت دیتا ہے کہ اس کے ساتھ ذات، مذہب، زبان یا کسی اور بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا،اتر پردیش میں ٹھیلوں، گاڑیوں، ریڑیوں اور دکانوں پر ان کے مالکان کے نام کے بورڈ لگانے کا تفرقہ انگیز حکم ہمارے آئین، ہماری جمہوریت اور ہمارے مشترکہ ورثے پر حملہ ہے“۔
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمنت اسدالدین اویسی نے ایکس پر لکھا کہ ایسے اقدام کو ماضی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی اور ہٹلر کے جرمنی میں بائیکاٹ کہا جاتا تھا۔ نغمہ نگار جاوید اختر نے اس کا موازنہ ’نازی جرمنی‘ سے کرتے ہوئے لکھا کہ کیا نازی جرمنی میں وہ صرف مخصوص دکانوں اور مکانات پر نشان نہیں بناتے تھے۔کانگریس رہنما پون کھیڑا نے ایکس پر لکھا ©©”انڈیا میں بڑے گوشت کے ایکسپورٹر ہندو ہیں، کیا ان کے ذریعے فروخت کیا جانے والا گوشت دال چاول بن جاتا ہے ۔معروف بالی وڈ اداکار سونو سود نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر دکان پر صرف ‘انسانیت’ لکھا ہونا چاہیے۔