مقبوضہ جموں و کشمیر

مودی حکومت پر تنقید کرنے والے کشمیری صحافیوں کے خلاف کریک ڈائون: رپور ٹ

jour

سرینگر: معیاری صحافت کے لئے ایوارڈ یافتہ آزاد صحافی نکی آسیہ نے کہا ہے کہ مودی حکومت نے غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو ان کی رپورٹنگ پر نشانہ بنایا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ٹوکیو سے شائع ہونے والی ایک اخبار ی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 2019میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کو ختم کئے جانے کے بعد سے علاقے میں آزادی صحافت پر کریک ڈان میں تیزی آئی ہے۔ معروف ہفتہ وار میگزین ”کشمیر والا ”کے چیف ایڈیٹر فہد شاہ کو جعلی خبروں کے الزام پر تقریبا دو سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ ان کا کیس مقامی صحافیوں کو پولیس کی طرف سے چھاپوں، دھمکیوں، حملوں اور مجرمانہ الزامات کے ساتھ نشانہ بنائے جانے کے تقریبا تین درجن واقعات میں سے ایک ہے۔34سالہ نوجوان صحافی فہد شاہ نے کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے ایک کیفے میں نکی آسیہ کو بتایا کہ گرفتار ہونا اور جیل جانا بہت مشکل ہے۔جب آپ اچانک بدلے ہوئے ماحول میں پہنچتے ہیں تو آپ کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جسمانی طور پر مجھے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور مجھے طبی امداد لینی پڑی جو کہ جیلوں میں محدود ہے۔ ایک دہائی قبل یونیورسٹی کے ایک اسکالر کی طرف سے ایک ڈیجیٹل میگزین میں ایک مضمون لکھنے پر 2022میں اس کے جیل جانے کا باعث بنا۔قابض حکام نے ان کے مضمون کو دہشت گردی کا بیانیہ قراردیتے ہوئے ان کو جیل بھیج دیا۔فری اسپیچ کلیکٹو کی بانی ایڈیٹر گیتا سیشو نے کہا کہ یہ کیس دوسروں کے لیے انتباہ تھا کہ وہ خاموش رہیں اور سوال نہ پوچھیں۔ انہوں نے کہاکہ اس کا فوری طور پر اثر پڑا۔ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے قوانین اور پبلک سیفٹی ایکٹ کا استعمال جموں وکشمیر میں اختلاف رائے کو دبانے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ ”کشمیر نریٹر ”کے اسسٹنٹ ایڈیٹر آصف سلطان کے خلاف مقدمہ بھی اسی زمرے میں شامل ہے جنہیں پانچ سال سے زائد عرصے تک نظربند ررکھنے کے بعد مئی میں ضمانت ملی تھی۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے انڈیا کے نمائندے کنال مجمدر نے بتایاکہ حالیہ برسوں میں گرفتار ہونے والے تقریبا ہر صحافی کو ان قوانین کے تحت الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کچھ صحافیوں پرالزامات کا براہ راست تعلق ان کے کام سے ہوتا ہے جبکہ کئی معاملات میں بالواسطہ تعلق ہوتا ہے۔ ان قوانین کو اکثر صحافیوں کو ڈرانے ، دھمکانے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس سے خطے میں آزادی صحافت متاثر ہوتی ہے۔ رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز کے 2024 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میںدنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں پریس کی آزادی پر پابند یوں سے بھارت 180ممالک میں سے 159ویں نمبر پر ہے۔ایک آزاد کشمیری میڈیا آئوٹ لیٹ کے ایک ایڈیٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میڈیا کریک ڈائون کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ سرکاری موقف آخری موقف ہے اور کوئی بھی اس پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔انہوں نے کہاکہ زیادہ تر صحافی دبائو برداشت نہیں کرسکتے اوروہ صحافت چھوڑدیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مقامی صحافتی اداروں کو مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے اوروہ اچھی اجرت نہیں دے سکتے ۔نیوز رومز کے پاس دو راستے رہ گئے ہیں ، بیچ دو یا چھوڑ دو۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button