مقبوضہ جموں و کشمیر

مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انتخابات سے تنازعہ کشمیر کو حل نہیں کیا جاسکتا: میر واعظ

سرینگر:غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ انتخابات سے دیرینہ تنازعہ کشمیر کو حل نہیں کیا جاسکتا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق میر واعظ عمر فاروق نے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ 2019کے بعد بھارتی حکومت کی طرف سے کی گئی تبدیلیوں سے تمام اختیارات منتخب اسمبلی سے لے کر لیفٹیننٹ گورنر کو دیے گئے ہیں جو بھارتی حکومت کانمائندہ ہے۔ .انہوں نے کہا کہ انہیں اگست 2019 سے سخت پابندیوں کا سامنا ہے جن میں گھر میں نظر بندی اور نقل و حرکت پر پابندیاں شامل ہیں۔انہوں نے کہاکہ مجھے عدالتی احکامات کے بعد ستمبر 2023 میں گھر میں نظر بندی سے جزوی طور پر رہا کیا گیا تھا، اس کے باوجود میری نقل و حرکت پر رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ میں مکمل طور پر آزاد آدمی نہیں ہوں کیونکہ حکام میری سرگرمیوں کی نگرانی کررہے ہیں اوروہ مجھے کسی بھی وقت گھر میں نظر بند کر سکتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ اگست 2019میں یکطرفہ تبدیلیاں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی مرضی کی پرواہ کیے بغیربھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور اسے ریاست سے گھٹا کر مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہارکیا کہ دفعہ370کے تحت لوگوں کو دی گئی آئینی ضمانتوںکو واپس لیا گیا اور لوگوں کودفعہ35Aکے تحت زمنیوں، نوکریوں اوروسائل کے تحفظ کی ضمانت سے محروم کردیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ ان تبدیلیوں کے ساتھ لوگوں پر مظالم اور نگرانی میں اضافہ ہوا ہے جس میں گرفتاریاں، کالے قوانین پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کا نفاذ،سرکاری ملازمتوں سے برطرفی، جائیدادوں پر قبضہ ، سوشل میڈیاسمیت اظہاررائے پر پابندی اور شہری آزادیوں کو سلب کرنا شامل ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حریت کانفرنس کشمیری عوام کے جذبات اور امنگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کاتنظیمی ڈھانچہ 2017سے کریک ڈائون اور گرفتاریوں سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ہمارے بہت سے رہنما اور کارکنان نظربند ہیں اور زیادہ ترتنظیموں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مواصلاتی پابندیوں، نگرانی اور میڈیا بلیک آئوٹ نے ہمارے کام کاج اور رسائی کو مزید محدود کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیںخود بھی بار بار نظربندکیاجاتا ہے۔ ان شدید چیلنجوں کے باوجود جب تک بھارت اور پاکستان جموں و کشمیر پر اپنا دعوی کرتے رہیں گے، تنازعہ کشمیرحل نہیں ہوگا اورلوگوں کے جذبات موجود رہیں گے ،حریت کانفرنس کی اہمیت برقراررہے گی۔میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ 2019کے بعد سے ہمارے عوامی روابط میںرکاوٹ پیدا کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ حریت کانفرنس کے بیانات کو مقامی میڈیا اور یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر بھی شائع کرنے پر پابندی ہے۔ ان اقدامات سے ہماری عوام اورمیڈیا تک رسائی محدود ہوئی ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ تنازعہ کشمیر کے جو ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہے، حل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور وہ انتخابی سیاست کو نہیں دیکھتے جو بنیادی طور پر انتظامی اور گورننس کے مقصد کے لیے ہوتی ہے۔ میرواعظ نے کہاکہ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی انتخابات بڑے سیاسی مسئلے کو حل کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ جب سے میرے والد کی شہادت ہوئی اور میں17سال کی عمر میں میر واعظ بنا، میں انہی کے نقش قدم پرچلا، جسے بعد میں حریت کانفرنس کی تشکیل کے بعد اس کے آئین میں بھی شامل کیا گیا،یعنی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے تنازعہ کشمیر کا حل تلاش کرنا۔حریت رہنمانے کہا کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019اور اس میں حالیہ ترامیم سے بھارتی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر کو وسیع ایگزیکٹو اختیارات دے کر منتخب اسمبلی کو بے اختیارکر دیا گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں اور ہم نے بھارتی وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ کے ساتھ بات چیت کی ہے، ہم نے 2014میں بھی جب وزیر اعظم نریندر مودی اقتدار میں آئے تھے، میڈیاکے ذریعے بات چیت کی ضرورت کو اجاگرکیاتھا۔انہوں نے کہا 2019کے بعدچین بھی تنازعہ کشمیرمیں شامل ہو گیا۔ بھارت اور پاکستان کی جانب سے تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی اور دو طرفہ وعدے کیے گئے ہیں۔ حریت کانفرنس کا خیال ہے کہ تمام فریقین کے درمیان بامعنی بات چیت ہی اس سے نکلنے کا پرامن راستہ ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگ اس تنازعے میں پس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے جس نے نسلوں کو کھایا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کنٹرول لائن کے دونوں جانب منقسم خاندانوں ،دوستوں اور کشمیری پنڈتوں کی واپسی کا مسئلہ ہے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button