مقبوضہ جموں وکشمیر کی نئی انتظامیہ ریاستی حیثیت کی بحالی کو ترجیح دے :پی چدمبرم
نئی دہلی:بھارت میں کانگریس کے سینئر رہنما اورسابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا ہے کہ جموں و کشمیرکی نئی انتظامیہ کا پہلا کام ”انڈیا” بلاک کی تمام جماعتوں کی حمایت سے ریاستی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ ہونا چاہئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق پی چدمبرم نے یہ بیان مقبوضہ جموں وکشمیر کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کی جیت کے بعد دیا۔چدمبرم نے تشویش کا اظہار کیا کہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے چند دن قبل ہی ایسے اختیارات حاصل کر لیے ہیں جو عوامی فیصلے کے لئے نقصاندہ ہیں۔ انہوں نے کہا اگر مودی حکومت ریاست کا درجہ بحال کرنے پر راضی نہیں ہوتی ہے تو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔انہوں نے یہ بیان مقبوضہ جموں و کشمیر میں صدر راج کے خاتمے کے بعددیا ہے۔ عمر عبداللہ 16 اکتوبر کو وزیر اعلی کے عہدے کا حلف اٹھانے والے ہیں۔تاہم جموں و کشمیر کے لوگ حق خودارادیت کے حصول کے لئے پرعزم ہیں جس کا اقوام متحدہ نے ان سے وعدہ کررکھا ہے، علاقے کی ریاستی حیثیت کی بحالی اور دفعہ370اور 35-Aکی واپسی سمیت دیگر تمام مسائل ان کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔حق خود ارادیت کے حصول کے لئے کشمیریوں کے اس غیر متزلزل عزم کی بنیاد خطے کی پیچیدہ تاریخ سے جڑی ہوئی ہے جس میں2019میں بھارت کی طرف سے علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی بھی شامل ہے جس سے بھارتی قبضے کے خلاف کشمیریوںکا مزاحمت کا عزم مزید مستحکم ہوا۔کشمیری کئی دہائیوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، فوجی محاصروں اور آزادی اظہاررائے پر پابندیوں کا سامنا کررہے ہیںجس سے حق خود ارادیت کے لئے ان کے عزم کو تقویت ملی ہے۔دفعہ 370کی منسوخی جیسے بھارتی حکومت کے اقدامات کو علاقے کی آبادیاتی ساخت کو بڑے پیمانے پرتبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس سے کشمیری عوام کے مسلم اکثریتی تشخص اور ثقافتی شناخت کو نقصان پہنچا ہے۔اس تناظر میں حق خود ارادیت کا مطالبہ جماعتی سیاست سے بالاتر ہے اور کشمیریوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا فیصلہ کیاہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی قراردادوں میں دی گئی ہے۔