مقبوضہ جموں وکشمیر میں نام نہاد اسمبلی اجلاس کی وجہ سے پابندیاں مزید سخت
سرینگر:غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بالخصوص سرینگر میں آج سے شروع ہونے والے پانچ روزہ اسمبلی اجلاس کی وجہ سے پابندیاں مزید سخت کر دی گئی ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر میںجو دنیا میں سب سے زیادہ فوجی جمائو والے علاقوں میں سے ایک ہے، اسمبلی عمارت کے اردگرد سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔قابض حکام نے عسکریت پسند سرگرمیوں میں اضافے کی آڑ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، جس کے نتیجے میں متعدد نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ایک سرکاری عہدیدارنے تصدیق کی کہ بھارتی فوج، پولیس اور پیراملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے سرینگر اور دیگر اہم علاقوں میں نئی چوکیاں قائم کر دی ہیں۔گاڑیوں اورمسافروںکی سخت تلاشی لی جا رہی ہے اورلوگوں کی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیںجبکہ فورسز اہلکاروں کی گشت بڑھا دی گئی ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ 27اکتوبر 1947کو سرینگر میں بھارتی افواج کے داخلے کے بعد سے جاری فوجی محاصرے نے ایک سنگین انسانی بحران پیدا کردیا ہے۔کشمیری عوام کو دبانے کے لیے آج مقبوضہ جموں وکشمیر میں 10لاکھ سے زائدبھارتی فوجی تعینات ہیں اور 5اگست 2019کو بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے صورتحال مزیدابتر ہو گئی ہے۔ بھاری تعداد میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے باوجودکشمیری عوام حق خود ارادیت کے لیے اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے یہ بات واضح ہے کہ بھارت کی فوجی موجودگی خطے کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ کشمیریوں کی حالت زارکے حوالے سے عالمی برادری کی مسلسل بے حسی سے سوال پیدا ہوتاہے کہ بھاری فوجی جمائو کوآخر کب تک جاری رہنے دیا جائے گا؟