بھارتی جیلوں میں سالہاسال سے مقید کشمیری نظر بندوں کی ناگفتہ بہہ صورتحال اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جرم بیگناہی کی پاداش میں اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور بھارتی جیلوں میں ان نظربندوں کا اس کے سوا کوئی قصور اور جرم نہیں ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں،جس کی پاداش میں انہیں نہ صرف تمام بنیادی سہولیات سے یکسر محروم کیا جاچکا ہے،بلکہ اس کے علاوہ ایک اور سنگین جرم جو کشمیری نظربندوں کیساتھ شروع دن سے لیکر آج تک روا رکھا جاتا ہے،کہ انہیں نہ تو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی عدالتیں کشمیری نظربندوں کی حالت زار کا نوٹس لینے کی زحمت گوراکرتی ہیں،یوں مقدمہ چلائے بغیر کشمیری نظر بند بھارتی جیلوں میں زندگی کے ایام گزارتے ہیں۔کوئی تیس برسوں سے بھارتی جیلوں میں بند ہیں تو کسی کو بتیس ،پچیس ،دس اورپانچ برس ہوچکے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ کشمیری آزادی پسند خواتین کو بھی بھارتی جیلوں میں سڑایا جارہا ہے۔مگر بھارت کا نظام قانون ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔خاص کر 2014میں بھارت میں مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پوری آزادی پسند قیادت کو بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند کیا گیا ہے،جبکہ 05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرکے انہیں عقوبت خانوں کی زینت بنایا جاچکا ہے ،جس کا اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں ہے کہ آزادی پسند قیادت کو تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرایا جائے،مگر بھارت اور اس کے حواریوں کو بار بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
بھارت منظم طریقے سے کشمیری نظربندوں کو ان کے سیاسی عقائد پر حملہ کرنے کیلئے ان کی غیر قانونی حراست میں طول دے رہاہے ۔کشمیری نظر بندوں کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے،انہیں تنگ و تاریک سیلوں تک محدود رکھا جاتا ہے اور بھارتی جیلوں میں ضروری طبی علاج سے انکار کیا جاتا ہے۔حالانکہ یہ ان کا عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق ہے ،جس پر خود بھارت بھی دستخط کرچکا ہے ۔البتہ بھارت نے کب عالمی اصولوں باالخصوص مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدر آمد کیا ہے کہ اب وہ کشمیری نظربندوں کے حقوق سے متعلق قوانین کی پاسداری کرسکے۔یہ کشمیری نظربندوں سے متعلق بھارتی حکمرانوں کا سفاکانہ طرز عمل کا ہی نتیجہ ہے کہ دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں ایک جھوٹے اور من گھڑت مقدمے میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک تقریبا گیارہ روز تک بھوک ہڑتال پر رہے،جس کا مقصد عالمی برادری کی توجہ جیل انتظامیہ کی کشمیری نظربندوں کے حوالے سے روا رکھے جانے والے مجرمانہ سلوک کی جانب مبذول کرانا ہے۔حالانکہ جناب یاسین ملک پہلے ہی دل کے عارضے میں مبتلا ہیں،ان کی صحت کیلئے بھوک ہڑتال نقصان دہ ہے اور ڈاکٹر انہیں پہلے ہی ایسا کرنے کی ایڈوائز کرچکے ہیں ،مگر بھارتی جیلوں میں کشمیری نظربندوں کیساتھ غیر انسانی سلوک میں اس قدر شدت آچکی ہے کہ محمد یاسین ملک کو بھوک ہڑتال پر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا،جس کے نتیجے میں ان کا گیارہ کلو وزن کم ہوچکا ہے،جس پر ان کے اہلخانہ اور تنظیم نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر محمد یاسین ملک کو کوئی نقصان پہنچا تو ذمہ دار مودی اور اس کی بی جے پی حکومت ہوگی۔ان کے اہلخانہ کی تشویش برحق اور درست ہے کیونکہ ماضی قریب میں تین سرکردہ کشمیری آزادی پسند رہنما بھارتی جیلوں میں اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔جن میں غلام محمد بٹ ساکن کولنگام ہندواڑہ دسمبر 2019 میں بھارتی ریاست اترپردیش کی پراگیہ راج نینی تال جیل میں طویل عرصے تک طبی امداد سے محرومی کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرگئے۔انہیں جولائی2019 میں بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے پہلے سرینگر کے سینٹرل جیل منتقل کیا گیا تھا، بعدازاں انہیں مقبوضہ وادی کشمیر سے باہر بھارتی ریاست اترپردیش لیجانے کا فیصلہ بھارتی وزارت داخلہ نے کیا۔ غلام محمد بٹ کے گھروالوں کو ان کے علیل ہونے کی معلومات نہیں تھیں اور پھر اچانک 12 دسمبر 2019 میں جیل حکام نے اہلخانہ کو ان کی وفات کی خبر دی۔شہید بٹ کا تعلق جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر سے تھا۔ 05 اگست2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد 62 سالہ غلام محمدبٹ پہلے ایسے سیاسی رہنما ہیں، جن کی بھارتی جیل میں موت واقع ہوئی ہے۔
معاملہ غلام محمد بٹ کی شہادت تک ہی محدود نہیں رہا ،بلکہ تحریک آزادی کشمیر کے ایک قدر آور رہنما اور اپنے لخت جگر بیٹے سمیت کئی شہدا کے وارث جناب محمد اشرف صحرائی بھی 05مئی 2021 میں جموں کی کوٹ بھلوال جیل میں ایک برس تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔انہیں اس وقت ہسپتال منتقل کیا گیا تھا ،جب ان کی سانسیں باقی نہیں رہی تھیں۔اس پر مستزاد یہ کہ جناب صحرائی کی میت رات کے وقت ان کے آبائی علاقہ لولاب پہنچائی گئی اور گھروالوں کو بندوق کے بل پر انہیں خاموشی سے تدفین کرنے پر مجبور کیا گیا۔یاد رہے کہ 77 برس کے جناب محمد اشرف صحرائی کے بیٹے جنید صحرائی نے معاشیات کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور پھر جام شہادت نوش کرگئے تھے۔ بیٹے کی شہادت کے فورا بعد جولائی میں محمد اشرف خان صحرائی کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کیا گیا تھا۔وہ تقریبا نصف صدی تک جماعت اسلامی کیساتھ وابستہ تھے اور جماعت کے نہایت مقبول رہنما سید علی گیلانی کے دست راست تھے۔ ان کی جیل میں وفات سے کشمیری نظر بندوں کی سلامتی کے بارے میں تشویش مزید بڑھ گئی تھی۔کیونکہ ریاستی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جناب صحرائی کی موت کو حراستی قتل قرار دیا۔محمد اشرف صحرائی کی جدائی کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ 04اکتوبر2022 میں دہلی کی تہاڑ جیل میں پانچ برسوں سے قید ایک اور آزادی پسند رہنما الطاف احمد شاہ کی بھی شدید بیماری کی حالت میں موت واقع ہوئی ۔حالانکہ ان کی بیٹی روا شاہ کئی ماہ تک اپنے والد کی رہائی کی اپیلیں کرتی رہیں کہ ان کے والد کو گھر میں نظربند رکھا جائے تاکہ ان کا بہتر علاج ممکن ہو سکے لیکن مودی حکومت نے ان کی اپیلوں کو یکسر نظرانداز کیا۔ ان کا دل اور گردے کام کرنا چھوڑگئے تھے،بقول ڈاکٹروں کے ان کا صرف دماغ کام کر رہا تھا۔ستم ظریفی یہ کہ موت سے قبل الطاف احمد شاہ نے کچھ کہنے کیلئے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی اور پھر روا شاہ کا یہ خدشہ 04 اکتوبر2022 میں درست ثابت ہو گیا۔الطاف احمد شاہ کو 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی NIA کی جانب سے تحریک آزادی کشمیرکی مالی معاونت سے متعلق ایک الزام کے تحت عمل میں لائی گئی تھی۔ 65 سالہ الطاف احمد شاہ کینسر جیسے موضی مرض میں مبتلا تھے ،لیکن انہیں بھی عام سہولیات تو دور طبی امداد سے محروم رکھا گیا تھا ،اور جب انہیں دہلی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال منتقل کیا گیاتھا ،تو ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ تیزی سے پھیلتے کینسر کی وجہ سے ان کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں۔تہاڑ جیل حکام نے ان کی صحت کے بارے میں ان کے خاندان کو تب تک کچھ نہیں بتایا جب تک کینسر ان کے پورے جسم میں مکمل طور پر سرایت نہیں کرچکا تھا۔ان کی تدفین بھی زور زبردستی کرائی گئی۔اس سے قبل یکم ستمبر2021 میں تحریک آزادی کشمیر کے بطل حریت سید علی گیلانی بھی پوری ایک دہائی تک گھر میں نظر بندی کے دوران اپنے اللہ سے کیے ہوئے عہد نبھا چکے ہیں،جس طرح بھارتی وردی پوشوں نے ان کی میت پر دھاوا بول کر ان کے گھر میں موجود مرد و خواتین پر تشدد اور پھر فوجی پہرے میں ان کی تدفین کی ہے،اس نے نہ صرف بھارتی جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے ،بلکہ بھارت کے دامن پر ایک ایسا دھبہ لگا ہے ،جس سے کسی صورت دھویا نہیں جاسکتا۔تہاڑ جیل میں ہی مقید ایاز محمد اکبر کی اہلیہ بھی وفات پاچکی ہیں،جو کینسر کی بیماری میں مبتلا تھیں،مگر ایاز اکبر اپنی اہلیہ محترمہ کے تابوت کو کندھا نہیں دے سکااور آج بھی پوری آزادی پسند قیادت کیساتھ تہاڑ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں قید ہیں۔آسیہ اندرابی کئی عوارض میں مبتلا ہیں،ان کیساتھ متعدد دوسری کشمیری خواتین بھی تہاڑ جیل میں ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر کے علاوہ بھارتی ریاستوں کی جیلوں میں قید آزادی پسند کشمیری قیادت اور نوجوانوں کیساتھ مودی کا ظالمانہ رویہ اور سلوک کوئی اچنبھا نہیں ہے ،البتہ ان جیلوں میں قید کشمیری ہمالیہ سے بڑھ کر حوصلہ رکھتے ہیں،جو ان کے الولعزم ہونے کا ثبوت ہے۔
بھارتی حکمران کشمیری نظر بندوں کی غیر قانونی نظربندی میں توسیع کیلئے بار بار ظالمانہ قوانین کا نفاذ عمل میں لا ر ہے ہیں۔جس پران کشمیری نظربند وں کے اہلخانہ بھارتی جیلوں میں اپنے پیاروں کی حفاظت اور سلامتی کے حوالے سے مسلسل پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔عدالتی احکامات کے باوجود فسطائی مودی حکومت کشمیری سیاسی نظربندوں کی رہائی میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔گرفتاریاں اور نظربندیاں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے جذبوں اور عزم کو توڑنے کی دانستہ کوششوں کا حصہ ہیں۔بھارت کی جانب سے ماورائے عدالت قتل اور غیر قانونی حراستیں اہل کشمیر کو ڈرانے اور ان پر ظلم کرنے کے مذموم حربے ہیں۔بھارت اور اس کے حورایو ں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وحشیانہ ہتھکنڈے اہل کشمیر کو ان کے حق خودارادیت کی جدوجہد سے باز رکھنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔بھارت کے مجر مانہ اقدامات نظربندوں کے حقوق سے متعلق جنیوا کنونشن کی صریحا خلاف ورزی ہیں۔عالمی برادری کشمیری سیاسی نظربندوں کی رہائی کی حمایت میں اپنی آواز بلند کرے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں جاری غیر قانونی حراستوں کا فوری نوٹس لینا چاہیے،تاکہ ایک تو مزید کشمیریوں کو گرفتاریوں اور پھر انہیں جیلوں میں سڑانے سے بچایا جاسکے ،دوسرا جو اس وقت بھارتی جیلوں اور عقوبت میں ہزاروں کشمیری قید ہیں،ان کی رہائی کو ممکن بنایا جاسکے۔جو ان کا بنیادی اور انسانی حق ہے۔