16 دسمبراوربھارتی رہنمائوں کا پاکستان کو توڑنے میں کردارادا کرنے کاکھلے عام اعتراف
اسلام آباد:آج بنگلہ دیش کے قیام اور 1971میں پاکستان کے ٹوٹنے کو 53 سال مکمل ہوگئے اوریہ جنوبی ایشیاکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جوپاکستان کو توڑنے کی منصوبہ بندی میں بھارت کے کھلے اور ڈھکے چھپے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پیچھے مکتی باہنی کے باغیوں کو مسلح کرنے، تربیت دینے اور انہیں اکسانے میں بھارت کی شمولیت سب سے اہم عوامل میں سے ایک ہے۔ بھارتی رہنما کھلے عام پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں اپنے کردار کا اعتراف کر چکے ہیں۔بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2015میں ڈھاکہ کے دورے کے دوران کھلے عام کہا تھا کہ یہ بات مشہور ہے کہ اندرا گاندھی کی قیادت میں ہزاروں بھارتی فوجی مکتی باہنی کے شانہ بشانہ لڑے۔ یہ بھارتی تاریخ کے قابل فخر لمحات میں سے ایک ہے۔اسی طرح سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا بدنام زمانہ بیان کہ” ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے”، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے بھارت کے عزائم کو واضح کرتا ہے۔1947 سے لے کر آج تک بھارت کی پاکستان دشمنی عیاں ہے۔ بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کی قیادت میں اس دشمنی کو مزید بڑھا دیا جس سے بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور مسلم دشمن جذبات کے ماحول کو فروغ ملا ہے۔ یہ دشمنی پاکستان کے وجود کو ایک خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کرنے سے بھارت کے دیرینہ انکار کا تسلسل ہے۔پاکستان کی تخلیق خود بنگال کے ان رہنمائوں کی مرہون منت ہے جن کا تحریک پاکستان میں اہم کردار تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو جس نے پاکستان کے نصب العین کو آگے بڑھایا، ڈھاکہ میں 1906میں قائم کیا گیا تھا، ایک ایسا شہرجو تسلط پسندانہ عزائم کے خلاف مسلمانوں میں اتحاد کی علامت تھا۔بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں بھارت کی مداخلت 1971میں اس کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی اور بھارت نے ڈھاکہ پر غیر ضروری اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم حالیہ پیش رفت ایک تبدیلی کا اشارہ دیتی ہے۔رواں سال اگست میں بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر احتجاج بھارت مخالف جذبات کی وجہ سے ہوا، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی بھارت نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس کے فورا بعد بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کے ایک نئے باب کا اشارہ دیا۔طلباء کی قیادت میں ہونے والی بغاوت نے بھارتی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے بنگلہ دیشیوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو اجاگر کیا۔ یہ بڑھتا ہوا عدم اعتماد تاریخی جذبات سے ہم آہنگ ہے۔ اپنی علیحدگی کے باوجود بنگلہ دیش نے اپنی مسلم شناخت کو برقرار رکھا ہے اوردو قومی نظریہ کے خاتمے کے بارے میں اندرا گاندھی کے دعوے کو غلط ثابت کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان اپنے تاریخی تعلقات پر نظرثانی کررہے ہیں، دونوں ممالک کے لیے بھارت کے تسلط پسندانہ عزائم کا مقابلہ کرنے اور باہمی فائدے کے لیے مل کر کام کرنے کا موقع ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے سے بیرونی مداخلت کے خلاف متحد ہ موقف اور خطے میں استحکام کو فروغ دینے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔1971میں بھارت کے اقدامات کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس کے ایجنٹ آج بھی پاکستان میں مسائل پیدا کر رہے ہیں جس سے علاقائی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کا مقصد ہمیشہ سے جنوبی ایشیا میں مسلم اکثریتی ممالک کو کمزور کرنا رہا ہے، پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی مضبوطی ان عزائم کو ناکام بناسکتے ہیں۔آج کا دن ایک طرف بیرونی مداخلت کے نتائج کی یاد دہانی کراتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دن اتحاد قائم کرنے اور دو قومی نظریے کی آفاقی سچائی کو تسلیم کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔