مودی کے دورے سے قبل مقبوضہ جموں وکشمیر میں پابندیاں مزید سخت
سرینگر:غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں حکام نے پیر کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ سے قبل پابندیاں مزید سخت کردی ہیں جس سے علاقے کی محصور آبادی میں شدیدغم و غصہ پایا جاتاہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق دورے کوجسے ایک پروپیگنڈہ دورے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کشمیری عوام کی آزادی اور انصاف کی خواہشات کا مذاق اڑانے کے مترادف قراردیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔مقبوضہ علاقے میں بھارتی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے اور پورے علاقے میں اضافی چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں جس سے عام لوگوں کی نقل وحرکت تقریبا ناممکن ہوکر رہ گئی ہے۔ سرینگر سے موصولہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ مواصلاتی نگرانی کو بڑھا دیا گیا ہے جبکہ سیکورٹی کے نام پر عوامی اجتماعات پر پہلے سے عائد پابندیوں کو مزید سخت کردیا گیا ہے۔مودی کے دورے کوبھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیرمیںترقی کی طرف ایک قدم کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ علاقے پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو جائز قرار دینے اور کشمیری عوام کو درپیش مشکلات اورزمینی حقائق کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔سرینگر کے ایک سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ یہ دورہ جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق ہے جو بھارت کے فوجی تسلط میں مسلسل مظالم برداشت کر رہے ہیں۔مقامی باشندوں اور سیاسی مبصرین نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں وحشیانہ فوجی کارروائیوں پر مودی کی مذمت کرتے ہوئے انہیں کشمیریوں کی مشکلات بڑھانے کا ذمہ دار قراردیاہے۔ کشمیری ان کے دورے کو بھارت کی دھوکہ دہی اور مظالم کی ایک اور کڑی کے طور پر دیکھتے ہیں۔جموں میں مقیم ایک سینئر صحافی نے کہا کہ یہ دورہ امن یا ترقی کے لئے نہیں بلکہ حالات کو معمول کے مطابق ظاہر کرکے دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے ہے۔یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب یہ خطہ دنیا کے سب سے زیادہ فوجی جمائو والے علاقوںمیں سے ایک ہے جہاں بھارتی فوجیوں کی موجودگی سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی کے نام نہاد ترقیاتی ایجنڈے کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبانے سے بین الاقوامی توجہ ہٹانا ہے۔انسانی حقوق کی ایک مقامی تنظیم کے ترجمان نے کہاکہ کشمیر ی عوام امن یا ترقی کے خلاف نہیں ، لیکن حقیقی امن اور ترقی صرف فوجی قبضے کو ختم کرکے اور کشمیریوں کے حق کا احترام کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں نے ترقی کے بارے میں بھارت کے دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ خطے کومواصلاتی بندشوں، جبری گرفتاریوں اور اختلاف رائے کو منظم طریقے سے دبانے کاسامناہے۔ انہوں نے کہاکہ جس سرزمین کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہو وہاں امن اور ترقی کیسے پروان چڑھ سکتی ہے؟ مودی کے پروپیگنڈا دورے کے دوران بھی کشمیری عوام تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کا مطالبہ کررہے ہیں،ایک ایسا حل جس میں ان کے بنیادی حقوق اور خواہشات کو تسلیم کیاگیا ہو۔ کشمیریوں کے نزدیک فوجی قبضے میں ترقیاتی منصوبوں کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ یہاں لوگوں کی آزادی اور وقار کو دبایا جارہا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین مودی کے دورے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اوریہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا پروپیگنڈہ دورے سے کشمیر یوں کی حالت زار کو چھپایا جاسکتا ہے یابالآخر سچائی سامنے آکر رہے گی۔