مقبوضہ جموں و کشمیر

امریکی کانگریس کی بریفنگ نے کرناٹک میں حجاب پر پابندی کو ”اجتماعی جنسی ہراسانی“قرار دیا

واشنگٹن، ڈی سی،فروری 26 (کے ایم ایس)امریکی کانگریس کی بریفنگ میں پینلسٹوں نے بھارتی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی کے ہائی کورٹ کے عبوری حکم کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایاہے ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی نژاد امریکی کارکن اور کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) کی ایک سابق اہلکار سمعیہ زامہ Sumaiya Zamaنے کہا کہ پوری دنیا کے سامنے بھارت میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ اجتماعی جنسی ہراسانی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی مسلم خواتین کو بتایا جا رہا ہے کہ کیا پہن سکتی ہیں اور کیا نہیں پہن سکتیں۔انہوںنے کہا کہ ہزاروں خواتین کی خواہش کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے کیونکہ انہیں کہا جارہا ہے کہ وہ حجاب اتار دیں جو وہ نہیں اتارنا چاہتیں۔زامہ جنہوں نے بریفنگ میں حجاب پہنا تھاکہا کہ بھارت میں حجاب پر پابندی کی کوششوں پر ہماری خاموشی کا مطلب ہے کہ مسلم خواتین کی جسمانی خود مختاری کی خلاف ورزی کی منظوری ۔ بھارتی نژاد امریکن آئی ٹی پرفیشنل امینہ کوثرجنہوںنے بریفنگ میں حجاب بھی پہن رکھا تھانے کہاکہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ اور کرناٹک حکومت کا اس پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ جو اب ریاست گیر پابندی بن چکی ہے آمرانہ مودی حکومت کے اسلامو فوبیا کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے ایسے قوانین اور پالیسیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جو ملک میں مسلمانوں اور دیگر کمزور برادریوں کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں جیسے کہ شہریت کا قانون، گائے کے گوشت پراور اسکے ذبیحہ کے خلاف قوانین، مسلم اکثریتی جموںوکشمیر کی آئینی خود مختاری کی منسوخی وغیرہ۔کرناٹک میں گرلز اسلامک آرگنائزیشن کی ڈسٹرکٹ آرگنائزر آمنہ کوثر نے وضاحت کی کہ کس طرح ایک کالج کے کلاس رومز میں حجاب پر پابندی کے فیصلے کی وجہ سے دوسرے اسکولوں کے منتظمین نے پابندی کو نافذ کیا حتیٰ کہ ان کالجوں میں بھی جہاں پہلے کیمپس میں حجاب کو قبول کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پرنسپل ہائی کورٹ کے حکم کا انتظار کرنے کے بجائے کچھ نرمی کریں تو یہ معاملہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے لیکن پرنسل جو انتہا پسند اکثریت سے ہیں اپنا غصہ مسلم طالبات پر ظاہر کرتے ہیں۔
بریفنگ کی میزبانی ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے، جینوسائیڈ واچ، 21 ولبر فورس، ہندوس فار ہیومن رائٹس، انڈین امریکن مسلم کونسل، انٹرنیشنل کرسچن کنسرن، جوبلی کمپین، دلت یکجہتی فورم، نیویارک اسٹیٹ کونسل آف چرچز، فیڈریشن آف انڈین امریکن کرسچن آرگنائزیشنز آف نارتھ امریکہ، انڈیا سول واچ انٹرنیشنل، اسٹوڈنٹس اگینسٹ ہندوتوا آئیڈیالوجی، سینٹر فار پلورلزم، امریکن مسلم انسٹی ٹیوشن، انٹرنیشنل سوسائٹی فار پیس اینڈ جسٹس، ایسوسی ایشن آف انڈین مسلمز آف امریکہ اور ہیومنزم پروجیکٹ (آسٹریلیا)نے کی تھی۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button