مقبوضہ جموں و کشمیر

اقوام متحدہ کے ماہرین کا اشرف صحرائی کی گرفتاری اورزیر حراست قتل کی تحقیقات کا مطالبہ


اقوام متحدہ 11ستمبر(کے ایم ایس)اقوام متحدہ کے چار خصوصی نمائندوں نے سینئر کشمیری حریت رہنما محمد اشرف صحرائی کی گرفتاری اور زیر حراست قتل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی پولیس نے محمد اشرف صحرائی کو12 جولائی 2020 کو سرینگر میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا ۔ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیے جانے کے بعد انہیں جموں کی ادھمپور جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ جیل میں ان کی حالت بگڑ گئی لیکن انہیں بروقت ڈاکٹر تک رسائی نہ دی گئی اور حالت زیادہ بگڑنے پر انہیں رواں برس 04 مئی کو گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں منتقل کیا گیا جہاں اگلے روز وہ فات پا گئے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے بھارتی حکومت کو لکھے گئے اپنے خط میں سینئر حریت رہنما کے زیر حراست قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔بھارتی حکومت کو بھیجے جانے والے مراسلے پرماورائے عدالت قتل سے متعلق نمائندہ خصوصیMorris Tidball-Binz،جبری گمشدگیوں سے متعلق ورکنگ گروپ کے چیئرمینTae-Ung Baik، سب کے لئے جسمانی اور ذہنی صحت کے اعلیٰ معیارتک رسائی کے حق کے بارے میں نمائندہ خصوصی Tlaleng Mofokeng اور تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا توہین آمیز سزا کے بارے میں نمائندہ خصوصیNils Melzerنے دستخط کئے ہیں۔ ۔یہ خط جولائی 2021 میں بھارتی حکومت کو روانہ کیا گیا تھا لیکن اسکی مقررہ وقت کے اندر جواب دینے میں ناکامی کے بعد جمعہ کے روز اس کی تشہیر کی گئی۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے بھارتی حکومت اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ محمد اشرف صحرائی کی زیر حراست موت کی فوری ، مکمل ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے تاکہ ا ن کی گرفتاری کی وجہ اور قانونی بنیادوں کا تعین اور دوران حراست ان کے علاج ، ان پر تشدد اور موت کی وجہ کے حوالے سے حقائق کا پتہ چل سکے ۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ وہ محمداشرف صحرائی کی گرفتاری اور حراست کے حوالے سے قانونی بنیادوں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرے ۔خصوصی نمائندوں نے انکی طبی تشخیص ، انتقال کے بعدجاری کی گئی ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں انتقال کی وجہ سے متعلق دستاویزات طلب کی ہیں اورکہا ہے کہ کیا اس طرح کی دستاویزات اہلخانہ کو دی گئی ہیں۔ انہوں نے اشرف صحرائی کے دو بیٹوں مجاہد اشرف خان اور راشد اشرف خان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں پوچھا ہے اور ان کی گرفتاری کی وجہ اور قانونی بنیاد، ان کی مسلسل نظربندی، اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کے بارے میں تفصیلی معلومات طلب کی ہیں کہ کیا ان کے ساتھ اچھا سلوک کیاجارہا ہے ، اہلخانہ اور وکلاءتک رسائی حاصل ہے اورکیا بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق مقدمے کی منصفانہ سماعت کو یقینی بنایا جارہا ہے؟خط کے مطابق محمد اشرف صحرائی کو 12 جولائی 2020 کو سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح اہلکاروںنے بغیر کسی وارنٹ کے گرفتارکیاتھا۔انہیں کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت صدرپولیس سٹیشن میںنظربند کیاگیا اور بعد میں اہلخانہ کو بتایا گیا کہ وہ جموں میں ادھمپور کی ڈسٹرکٹ جیل میں نظر بند ہیں۔ نمائندوں کے مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ ان کے اہلخانہ اکتوبر 2020ءمیں معلومات حاصل کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ جیل ا دھمپور گئے جہاں انہیں کوئی معلومات نہیں دی گئیں بلکہ جیل حکام اور بھارتی فوج کے ایک آفیسر کی طرف سے انہیں دھمکیاں دی گئیں ۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں حبس بے جاکا کیس دائر کرنے کے باوجود جس کا فیصلہ 15 دن کے اندراندرہوناچاہئے تھا، محمد اشرف صحرائی کو رہا نہیں کیاگیا۔ اسی طرح ان کے اہلخانہ نے ان کے علاج کو یقینی بنانے کے لئے تین بار عدالت سے رجوع کیا۔ نمائندوں کے مطابق ان کے اہلخانہ نے علالت کے باعث ان کی ادھمپور جیل سے سینٹرل جیل سرینگر منتقلی کی کوشش کی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ خط میں کہاگیا ہے کہ اشرف صحرائی کی تدفین کے بعدان کے بیٹوں مجاہد اشرف خان اور راشد اشرف خان کو اپنے گھر سے گرفتار کیا گیا اور وہ تب سے مسلسل نظربند ہیں۔ ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون یواے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور انہیںمختلف جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ خط میں کہاگیا ہے کہ محمد اشرف صحرائی کے انتقال کی وجہ نمونیا اور آکسیجن کی کم سطح بتاکرکورونا وبا سے منسوب کی گئی ہے جبکہ وہ مبینہ طور پر ادویات تک رسائی نہ ہونے اورجیل میں طبی دیکھ بھال کے فقدان کی وجہ سے انتقال کرگئے ہیں۔نیند کی کمی اور قید تنہا نے بھی شاید اس کی صحت پر منفی اثر ات ڈالے ہوں۔ نمائندوں نے اپنے خط میں کہاہے کہ بھارتی حکام نے مبینہ طورپر ابھی تک محمد اشرف صحرائی پر تشددکے الزامات اوردوران حراست انتقال کی تحقیقات شروع نہیں کی ہے۔خط میں کہاگیا ہے کہ اگریہ سچ ہے تو یہ الزامات ہر فرد کے زندہ رہنے اور سلامتی سے متعلق حق کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 60 دن کے اندر اندر جواب دے اور اس دوران قانون کے مطابق اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے محمد اشرف صحرائی کی گرفتاری، نظربندی اور انتقال کا جائزہ لینے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے تاکہ ان کے دونوں بیٹوں کے انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنایا جائے اور مبینہ خلاف ورزیوں کے ذمہ دار افراد کو جوابدہ بنایا جائے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button