بلقیس بانو اجتماعی عصمت در ی کیس کے مجرموں کی رہائی کے گجرات حکومت کے فیصلے پر کڑی تنقید
نریندرمودی بتائیں، خواتین کو عزت دینے کی جوبات انہوں نے کی تھی اس کا یہی مطلب ہے
نئی دلی 17اگست (کے ایم ایس)بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں ، خواتین کارکنوں اور مسلم لیڈروں نے 2002کے بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے11ہندو مجرموں کی سزا معاف کرنے کے بی جے پی زیر قیادت گجرات حکومت کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے ۔انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال کیا ہے کہ یوم آزادی کے موقع پر انہوں نے خواتین کو عزت دینے کی جو بات کی تھی کیا اس کا یہی مطلب ہے ؟
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق کانگریس میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پون کھیرا نے ایک بیان میں بلقیس بانو کیس کے 11مجرموں کی رہائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ نریندر مودی نے پیر کو بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ پر اپنے خطاب میں ناری سمان کی بات کی تھی اور کہاتھا کہ خواتین کا احترام نہ کئے جانے سے انہیں شدید تکلیف پہنچتی ہے۔انہوں نے کہاکہ مودی نے خطاب میں لوگوں پر "ناری شکتی”کا احترام کرنے پر بھی زوردیاتھا،تاہم چند گھنٹے بعد اسی دن گجرات میں بی جے پی کی حکومت نے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے 7افراد کے قتل کے مجرم 11ہندوئوںکو رہا کردیاگیا۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کے عوام کو بتائیں کہ کیا انہوں نے لال قلعہ سے جو کچھ کہا وہ محض لفاظی تھی کیونکہ وہ خود ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔2002میں بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے سات افراد کے بہیمانہ قتل میں عمر قید کی سزا پانے والے تمام 11 مجرموں کو قیدیوں کی سزائوں کی معافی کی حکومت کی پالیسی کے تحت گودھرا سب جیل سے رہا کیا گیا ہے۔3 مارچ 2002 کو احمد آباد کے قریب رندھیک پور گاں میں مسلم کش فسادات کے دوران جب یہ شرمناک واقعہ پیش آیا تو اس وقت بلقیس کی عمر 21سال تھی اور وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھی ۔ مسلم کش فسادات کے دوران بلقیس کے تین بچے بھی قتل کردئے گئے تھے ۔ ممبئی کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے 2008میں اس مقدمے 11ہندومجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری اور خواتین کے حقوق کی معروف کارکن کویتا کرشنن نے بلقیس بانو کیس کے مجرموں کی سزائوں کی معافی پر کہاکہ ” یہ نیا ہندوستان ہے”۔انہوں نے گجرات حکومت کا فیصلہ بھارت میں قاتلوں اور ریپسٹوں کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے ۔کویتا جو آل انڈیا پروگریسو ویمنز ایسوسی ایشن کی سکریٹری بھی ہیں نے کہاکہ ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے حالیہ دنوں میں مسلمانوں کی نسل کشی اور خواتین عصمت دری کے لیے لوگوںکو اکسانا بھارت میں ایک معمول بن گیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ بلقیس بانو کیس کے مجرموں کی رہائی کے فیصلے سے ان ہندو انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
انہوں نے عصمت دری اور قتل کے مجرموں کی سزا معاف کرنے پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا اورکہاکہ یہ فیصلہ ان دونوں کے آشیرباد سے کیا گیا ہے۔آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامدنے بھی گجرات حکومت کی عصمت دری اور قتل کے مجرموں کی سزا معاف کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بدقسمتی اور آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔انہوں نے کہاکہ اس فیصلے سے بی جے پی حکومت کی مسلم دشمنی ظاہر ہوتی ہے ہے۔انہوں نے کہاکہ قتل اور اجتماعی عصمت دری کے شرمناک واقعے کے مجرموں کی سزائیں معاف کئے جانے سے بھارت میں مجرمانہ ذہنیت کو فروغ ملے گا۔انہوں نے کہاکہ یہ فیصلہ نہ صرف مسلم دشمنی پر مبنی ہے بلکہ اس سے مسلمانوںکے بارے میں حکومت کی بے حسی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نیایک بیان میں بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس کے عمر قید کی سزا کاٹنے والے11مجرموں کی رہائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ گجرات حکومت کا فیصلہ بھارت میں خواتین کی آبروریزی کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے۔ انہوںنے کہاکہ گجرات حکومت یوم آزادی کے نام پر خاتون کی عصمت دری اور لوگوں کے قتل کے گھنائونے جرم میں ملوث خطرناک مجرموں کی سزا معاف کرکے کیا پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔اسد الدین اویسی نے کہاکہ 2002کے گجرات فسادات کے دوران پیش آنے والے اس گھنائونے واقعے میں ملوث 11ہندوئوں کو جنہیں بمبئی ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی یوم آزادی کے موقع پر قیدیوں کی سزا ئوں میں کمی کی آڑ میں رہاکردیا گیاہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ایک مخصوص طبقہ کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کی پشت پناہی کر رہی ہے ۔