ہمارے پاس اسلام قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا:دلت نوجوان
نئی دہلی 22 فروری (کے ایم ایس)جنوبی بھارت کی ریاست تامل ناڈو کے بوڈینائیکنور قصبے کی ڈومبوچیری بستی میںبرسوں سے نسلی تعصبات، مارپیٹ اور جھوٹے الزامات کا مقابلہ کرنے والے 40تعلیم یافتہ دلت نوجوانوں کاایک گروپ بالآخر اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوا۔
دسمبر 2021 میں چنئی سے تقریباً 520 کلومیٹر دورضلع تھینی کے ایک گاوں ڈومبوچیری میں دس گھرانوں کے 40 دلت نوجوانوں کے ایک گروپ نے اسلام قبول کیا۔ بوڈینائیکنور تامل ناڈو کے سابق وزیر اعلی اور AIADMK کے ایک اہم رہنما او پنیرسلوم کی نشست ہے۔گزشتہ ماہ ایک اقلیتی ادارے میں زیر تعلیم 17 سالہ لڑکی کی خودکشی کے بعدتامل ناڈو بی جے پی یونٹ اور بنیاد پرست ہندوتوا تنظیمیں ریاست میںمذہب کی جبری تبدیلی کا الزام لگا رہی ہیں اور تبدیلی مذہب کے خلاف قانون کا مطالبہ کر رہی ہیںتاہم مذہب تبدیل کرنے والے افراد نے جبری تبدیلی کے بی جے پی کے الزام کو مسترد کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈومبوچیری میں اونچی ذات کے ہندووں نے گاوں کے دلتوں کو بار بار نشانہ بنایا جس کی وجہ سے وہ یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے۔دیہاتیوں نے جنہوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا، گزشتہ ہفتے ڈومبوچیری گاوں کے دورے کے دوران صحافیوںکے ساتھ اپنی کہانیاں بیان کیں۔ ایک دیہاتی یاسر عرفات کے مطابق جس کا سابقہ نام ویرامانی تھا، بستی میں اونچی ذات کے ہندو دلتوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، چاہے وہ سڑکوں پر ٹہل رہے ہوں یا ان کے بچے سائیکل پر سوار ہوں۔گاوں والوں کے مطابق ڈومبوچری میں پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے تقریباً1200اور 400 دلت خاندان موجودہیں۔عرفات نے کہا کہ ہر جھگڑے کے بعد پولیس دلتوں کو ہی نشانہ بناتی ہے۔ اسماعیل نے بتایا کہ منوج کے خلاف چھ مقدمات درج کیے گئے ہیں جو علاقے میں واحد دلت وکیل ہیں۔ دوسری طرف دیوالی پر آنگن واڑی سنٹر میں کام کرنے والی ایک خاتون کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اسماعیل کے مطابق وہ دلت برادری سے تعلق رکھنے والی ڈومبوچیری کی واحد سرکاری ملازم ہے۔عرفات نے کہا کہ پولیس کیسز ان کی روزی روٹی کو متاثر کر رہے ہیں کیونکہ انہیں ہر 15 دن بعد صبح 10.30 بجے سے پہلے اپنی موجودگی درج کرانے کے لیے پولیس اسٹیشن جانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد کہیں بھی نوکری ملنا ناممکن ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں کے مطابق اونچی ذات کے ہندووں کو یہ پسند نہیں تھا کہ علاقے کے کچھ دلت نوجوان تعلیم یافتہ ہوں اور کام تلاش کرنے کے قابل ہوں۔محمد اسماعیل نے جو پہلے کالی کنن کے نام سے جانا جاتا تھا،کہا کہ جب بھی وہ گاو¿ں میں دلتوں کے خلاف پولیس شکایات درج کراتے ہیں، تعلیم یافتہ افراد کو نامزد کرتے ہیں۔ویراموتھونے جن کا نام اب محمد علی جناح ہے کہا کہ مختلف قوانین اور رہنما اصولوںکے باوجود دیہاتوں میں نچلی ذات کے خلاف تعصب برقرار ہے۔انہوں نے کہاکہ اگر ہم گاوں میں حجام کی دکانوں پر جائیں تو وہ ہمارے بال نہیں تراشیں گے۔ ہمیں قریبی گاوں میں بال کٹوانا پڑتے ہیں۔ عبدالرزاق اسلام قبول کرنے والے پہلے دلت اور ڈومبوچیری میں 30 سال سے زائد عرصے سے اس مذہب پر عمل کرنے والے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حملے کا نشانہ بننا ان کے مذہب کی تبدیلی کی اہم وجہ تھی۔انہوں نے کہاکہ میرے پاس زمین، ایک مکان اور وہ سب کچھ تھا جو ایک اونچی ذات کے ہندو کے پاس ہوتاہے۔ اس کے باوجودمجھے مسلسل ہراساں کیا گیا اور امتیازی سلوک کیا گیا۔ سکول میں مجھے بینچوں پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب میں بڑا ہوتا گیا تو میں اسے مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا اور جب میں نے بات کرنا شروع کی تو تشدد شروع ہو گیا۔میں نے ہر ممکن طریقے سے مقابلہ کیا۔ میں نے شکایات درج کیں اور مظاہرے کئے۔ میں نے سوال کیا کہ حکام نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ تاہم کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر میں اپنا گاوں چھوڑ کر ایک مسلمان کے گھر کام پر گیا ، وہاں مجھے احساس ہوا کہ اس نے میرے ساتھ کتنا اچھا سلوک کیا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ اسلام کیا ہے اور اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔میں نے 1990 میں مذہب تبدیل کیا اور یہ لوگ 2022 میں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنے سال گزرجانے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا، آج بھی دلتوں کے ساتھ وہی سلوک ہورہا ہے۔