بھارت میں یورینیم چوری کے مسلسل واقعات سے جوہری دہشت گردی کا خطرہ ہے: رپورٹ
اسلام آباد 22 فروری (کے ایم ایس) بھارت میں یورینیم کی چوری کے متواتر واقعات سے دنیا کو جوہری دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہے کیونکہ بھارت میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران 200 کلو گرام سے زائد جوہری مواد چوری ہوچکا ہے جبکہ ابھی کچھ دن پہلے نیپال میں دو بھارتی شہریوں سے 2.5 کلو گرام غیرافزودہ یورینیم پکڑا گیا ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مبصرین نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت میں تابکار مواد کی کڑی نگرانی کا نظام قائم کرے۔ یہ مطالبہ اس لئے بھی اہم ہے کہ نیپال سے یورینیم کے ساتھ گرفتار ہونے والے افراد میں سے ایک نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے سسر نے یہ موادبھارت سے لایا تھا جہاں وہ یورینیم کی کان میں کام کرتا تھا۔مبصرین نے سوال اٹھایا کہ اگر کسی دوسری جگہ تابکار مواد پکڑا جاتا تو کیا بھارتی اور مغربی ذرائع ابلاغ خاموش رہتے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے مقابلے میں جہاں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، بھارت میں 1994 سے 2021 تک جوہری مواد کی چوری اور گم ہونے کے کم از کم 20 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت جوہری ٹیکنالوجی اور مواد کی غیر قانونی تجارت کا گڑھ بنتا جارہاہے۔ نومبر 1994 میں میگھالیہ پولیس نے ڈومیاسیٹ علاقے میں چار سمگلروں کے ایک گروہ سے 2.5 کلوگرام یورینیم ضبط کیا۔ جون 1998 میں بھارتی ریاست مغربی بنگال میں پولیس نے حزب اختلاف کے ایک سیاست دان کو گرفتار کیا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ 100 کلو گرام سے زیادہ یورینیم لے کر جا رہا تھا۔ جولائی 1998 میں سی بی آئی نے تامل ناڈو میں یورینیم کی چوری کے ایک بڑے گینگ کا پردہ فاش کیا جس میں آٹھ کلو سے زیادہ جوہری مواد ضبط کیا گیا۔ اگست 2001 میں بھارتی ریاست مغربی بنگال میں پولیس نے دو افراد کو 200 گرام سے زائد نیم افزودہ یورینیم کے ساتھ گرفتار کیا۔ 2003 میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے بنگلہ دیش کی سرحد پر ایک گاو¿ں میں ایک گروہ کو 225 گرام یورینیم کے ساتھ پکڑا۔ دسمبر 2006 میں مشرقی بھارت میں ایک قلعہ بند تحقیقی مرکز سے تابکار مواد سے بھرا ایک کنٹینر چوری ہو گیا۔ 2008 میں ایک اور جرائم پیشہ گروہ کو کم طاقت والا یورینیم اسمگل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا ۔ اسی سال ایک اور گروہ کو سرحد پر یورینیم کا غیر قانونی ذخیرہ بنگلہ دیش منتقل کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ 2009 میں جنوب مغربی بھارت میں جوہری ری ایکٹر کے ایک ملازم نے ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق پلانٹ کی حفاظت میں بے شمار نقائص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جان بوجھ کر اپنے درجنوں ساتھیوں کو تابکار آئسوٹوپ کے ساتھ زہر دے دیا ۔ 2013 میں شمال مشرقی بھارت میں بائیں بازو کے گوریلوں نے ملک کے شمال مشرقی علاقے میں ایک سرکاری کمپلیکس سے غیر قانونی طور پر یورینیم حاصل کیا اور پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے سے پہلے اس کیس میں ملوث ایک انسپکٹر کے مطابق اسے بم بنانے کے لیے بڑے دھماکہ خیز مواد سے باندھ دیا۔ دسمبر 2015 میںسینٹر فار پبلک انٹیگریٹی نے مدراس اٹامک پاور اسٹیشن سے متصل رہائشی کمپلیکس میں ایک واقعے کی اطلاع دی تھی تاکہ عالمی توجہ بھارت کی جوہری تنصیبات کے ارد گرد سیکورٹی کے خطرات اور خلاف ورزیوں کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔ اس واقعے میں ہیڈ کانسٹیبل وجے سنگھ شامل تھا جس نے تین ساتھی افسران کو قتل کرنے کے لیے سرکاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ دسمبر 2016 میں تھانے شہر میں دو افراد سے تقریباً 9 کلو تابکار یورینیم ضبط کیا گیا تھا۔ حال ہی میں 2018 کے اوائل میں کولکتہ پولیس نے ایک کلو تابکار مواد کے ساتھ یورینیم کی اسمگلنگ کے گینگ کا پردہ فاش کیا تھا جس میں اسمگلر مبینہ طور پر تقریباً 440,000 ڈالر مالیت کا یورینیم فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ 3 جون 2021 کومشرقی ریاست جھارکھنڈ کے ضلع بوکارو میں پولیس نے سات افراد کو گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے 6.4 کلو گرام یورینیم برآمد کیا۔15 فروری 2022 کو کھٹمنڈو میں یورینیم نما مادہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے آٹھ افراد میں سے دو بھارتی بھی شامل ہیںجسے نیپال میں غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کے لیے بھارت سے لایا گیا تھا۔اس کے علاوہ بھی بھارت میں یورینیم چوری کے کئی اور واقعات رپورٹ ہوئے ہیں لیکن عالمی برادری ایسے خطرناک واقعات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔