مقبوضہ جموں و کشمیر

ویبنار کے مقررین کی مقبوضہ کشمیر میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کی شدید مذمت

اسلام آباد16مارچ (کے ایم ایس) ورلڈ مسلم کانگریس کے تعاون سے کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے زیر اہتمام ایک ویبینار میں مقررین نے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں مودی کی نسل پرست حکومت کی طرف سے اختلاف رائے کو ناجائز قراردینے (قدغن )پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق ویبنار کا اہتمام اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے49ویں اجلاس کے موقع پر کیا گیاتھا۔ویبنار میں میری سکلی، رابرٹ فنٹینا مصنف ، بیرسٹر تنویر منیم صحافی، شینی حامد، ایڈووکیٹ ناصر قادری، نائلہ الطاف کیانی، پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ اشرف اور دیگرنے شرکت کی جب کہ اس کی نظامت کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے کی۔ اپنے ابتدائی کلمات میںالطاف حسین وانی نے کہا کہ پرامن اظہار کی آزادی کا حق ہر انسان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل تنسیخ حق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے بل کے آرٹیکل 19میں شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ دیگر بین الاقوامی معاہدوں میں پرامن اجتماع کی آزادی اوراظہار رائے کی آزادی کے حق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بنیادی آزادی ایک آزاد معاشرے میں رہنے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے، جس میں لوگ انصاف اور دیگر عدالتی علاج تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ الطاف وانی نے ان حقوق کا دفاع کرتے ہوئے، کہاکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ آج مقبوضہ کشمیر میں یہ بنیادی آزادیاں بڑی حد تک معطل ہیں اور عملی طور پران کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قابض انتظامیہ کی طر ف سے مقبوضہ علاقے میں پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پر نگرانی، سیاسی سرگرمیوں پر پابندی، پرامن اجتماع اور اظہار رائے کا حق اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف عائد پابندیوں پر بین الاقوامی سطح پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری گزشتہ 30 سال سے ظلم و ستم کا شکار ہیں تاہم 5 اگست 2019 کے بعد خطے کی صورتحال تشویشناک حد تک بگڑ گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ اگست2019کے بعد سے مودی حکومت نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون”یو اے پی اے”کو ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پریس کونسل آف انڈیانے جوایک سرکاری ادارہ ہے، اپنی رپورٹ میں بہت سے کشمیری صحافیوں کے دستاویزی شواہد پیش کیے ہیں جن کے مطابق فسطائی بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں اختلاف رائے پر قدغن کیلئے جابرانہ قوانین کا استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی اور سول سوسائٹی کے کارکنوں، صحافیوںاور انسانی حقوق کے محافظوں کو ان ظالمانہ قوانین کے تحت بغاوت اور دیگر جرائم کا الزام لگا کر خاموش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق اور دیگر بین الاقوامی قوانین کے آرٹیکل 19کا حوالہ دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ قانون کے مطابق ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہوگا۔تاہم بدقسمتی سے ہندوستان کی نسل پرست حکومت ان کالے قوانین کو مقبوضہ علاقے میں پرامن اظہار رائے پر قدغن عائد کرنے کیلئے استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ علایق میں ذرائع ابلاغ پر غیر ضروری پابندیاں اورقدغنیںجیسے نگرانی، رسمی/غیر رسمی تحقیقات، ہراساں کرنا اور دھمکیاں دینا، خبریں دینے کے تمام عمل میں پابندیوں نے صحافیوں کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ مقررین نے مقبوضہ علاقے کی موجودہ صورتحال پر اپنے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ بھارت نے جموں وکشمیر میں اختلاف رائے اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے لوگوں کی جائز مزاحمت کو دبانے کے لیے بار بار کالے قوانین کا استعمال کیا ہے۔ان قوانین کو کشمیر میں اظہار رائے کی آزادی کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجرمانہ ہتک عزت، صحافیوں پر ظلم و تشدد، معلومات کے حصول کے حق پر عائد قدغن اور میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کا طریقہ کار بھارتی حکومت کے بدترین ہتھکنڈوں میں شامل ہے جن کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں آزاد میڈیا اور صحافیوں کو خاموش کرایاجارہا ہے ۔مقررین نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں خاص طور پر 5 اگست 2019 کے بعد سے پرامن تقریر اور اظہار خیال پر حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے، جب بھارتی حکومت نے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کومنسوخ کر دیا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری مقبوضہ علاقے کی سنگین صورتحال کا فوری نوٹس لے اور بھارتی حکومت پر کشمیر میں تمام بنیادی آزادیوں کو بحال کرنے کے لیے دبا ئوڈالے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button