بھارت : دلتوں پر مظالم ڈھانے کا سلسلہ جاری،اترپردیش میں دلت بچے کو پائوں چاٹنے پرمجبورکردیاگیا
لکھنو 19اپریل (کے ایم ایس)بھارت میں دلتوں پرمظالم ڈھانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور تازہ ترین واقعے میں ریاست اترپردیش میں نام نہاد اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے ایک دلت بچے کو پائوں چاٹنے پر مجبورکردیا۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند نوجوان ایک طالب علم کو پہلے بری طرح مار پیٹ رہے ہیں اور پھر اسے پائوں چاٹنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ مجبور طالب علم نچلی ذات کی دلت برادری سے تعلق رکھتا ہے جبکہ اسے مارنے اور اس کے ساتھ زور زبردستی کرنے والے نام نہاد اعلیٰ ذات کے ٹھاکر ہیں۔ اس ویڈیو کو دلت وائس نامی تنظیم کے ٹوئٹر پر شیئر کیا گیا ہے۔ آل انڈیا دلت مہیلا ادھیکار منچ کی کنوینر ومل تھوراٹ کہتی ہیںکہ دلتوں کو کسی کیس کو حتمی انجام تک پہنچانے کے لیے برسوں جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور20 فیصد سے بھی کم کیسز میں سزا ہو پاتی ہے جبکہ نصف سے زائد کیسز کو آگے بڑھایا ہی نہیں جاتا ہے کیونکہ بالعموم متاثرہ خاندانوں پر مختلف طرح کے سخت دبائو ہوتے ہیں۔ ومل تھوراٹ کا کہنا ہے کہ بعض ریاستوں میں دلتوں کے خلاف دشمنی اور میڈیکل افسران اور پولیس اہلکاروں کی اعلی ذات کے گروپوں کے ساتھ ملی بھگت کے نتیجے میں شکایت کنندہ کو مصالحت پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ڈھائی منٹ کی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سزا کے طور پر ایک لڑکا کان پکڑے ہوئے زمین پر بیٹھا ہوا ہے جو خوف کے مارے تھرتھر کانپ رہا ہے۔ ملزم موٹر سائیکلوں پر بیٹھے ہیں اور وہ لڑکے پر ہنس رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرہ دلت لڑکا دسویں کا طالب علم ہے جو اپنی بیوہ ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کی ماں اعلی ذات کے ہندوئوں کے کھیتوں میں کام کرتی ہے۔ جب دلت لڑکا اپنی ماں کی مزدوری مانگنے گیا تو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے اسے پہلے بری طرح مارا پیٹا اور پھر ایک ملزم نے ا سے اپنے پائوں چاٹنے پرمجبورکردیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 10 اپریل کو پیش آیا تھا۔ لیکن ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہی اس پر کارروائی کی گئی۔ پولیس نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث سات افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بھارت میںدلتوں کو اب بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے بھارت کی ایک اعشاریہ تین ارب کی آبادی میں سے لگ بھگ 200ملین افراد دلت ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں ہندو مذہبی روایات کے مطابق بھارتی معاشرے میں سب سے نچلی ذات تصور کیا جاتا ہے۔ دلت خواتین کی تذلیل ، ان کے ساتھ جنسی زیادتی، دلت نوجوانوں کو اچھے کپڑے پہننے حتیٰ کہ مونچھ رکھنے پر مارنے پیٹنے کے واقعات عام ہیں۔ شادی کے موقع پر دلت دولہے کا گھوڑے پر سوار ہونا ایک غیر معمولی واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ بھارتی وزیر رام داس اٹھاولے نے مارچ میں بھارتی پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ گزشتہ تین برس یعنی سن 2018سے 2020کے دوران دلتوں کے خلاف جرائم کے ایک لاکھ 38ہزار 825واقعات درج کئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ سن 2018میں 42793کیس، سن 2019 میں 45961اور سن 2020میں 50291کیسز درج کئے گئے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی سن 2021کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں دلتوں کے خلاف جرائم میں 9.3فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ سن 2020میں دلتوں کے خلاف جرائم کے سب سے زیادہ 12714واقعات اترپردیش میں پیش آئے ۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ دلتوں کے خلاف جرائم کے واقعات کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہیں۔کیونکہ کافی دوڑ دھوپ اور دبا ئوکے بعد بھی صرف پچاس فیصد واقعات میں ہی باقاعدہ کیس درج ہو پاتے ہیںاور اگر کیس درج بھی ہو گئے تو ملزموں کے خلاف بہت معمولی دفعات لگائے جاتے ہیںجس کی وجہ سے وہ اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں۔ ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ سزا کی شرح صرف 15.7فیصد ہے۔