بی جے پی حکومت تاریخ کو مسخ کرنے کی منظم کوششیں کررہی ہے: مورخین
نئی دہلی13 ستمبر (کے ایم ایس)مورخین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی حکومت تاریخ کو مسخ کرنے کی منظم کوششیں کررہی ہے اور برطانوی سامراجی دور کے مظالم کو گھٹا کر بیان کر نا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق مورخین نے کہاکہ جلیانوالہ باغ کی میموریئل کی تزئین کے دوران سن 1919 میںمیں ڈھائے جانے والے مظالم کے نشانات یا حوالوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔جلیانوالا باغ میں برطانوی فائرنگ سے ایک ہزار کے قریب انسانی جانیں ضائع ہونے پر تمام مورخین کا اتفاق ہے۔ اسی واقعے نے برطانوی حکمران ٹولے کے خلاف ایک کلیدی قوم پرست تحریک شروع ہونے میں اہم کردار اداکیاتھا۔ممتاز بھارتی مورخ چمن لال کے مطابق تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش گاندھی کے سبرامتی آشرم کے حوالے سے بھی کی گئی۔ بھارتہ جنتا پارٹی کی حکومت نے مہاتما گاندھی کی الہ آباد یادگاروں کی تزئین شروع کر رکھی ہے۔ ان میں ایک سبرامتی آشرم عرف گاندھی آشرم اور دوسری سبرامتی سینٹرل جیل ہے۔ان دونوں مقامات پر گاندھی نے اپنی زندگی کے کئی برس گزارے تھے۔ چمن لال کے مطابق تاریخ میں رد و بدل کرنے کی کوشش وہ کر رہے ہیں جنہوں نے خود آزادی کی جد وجہد میں حصہ ہی نہیں لیا اور نہ ہی اس کا احترام کرتے ہیں۔نریندر مودی حکومت کا تاریخ مٹانے کا ایک اور فیصلہ دارالحکومت نئی دہلی کے وسطی پینتیس ہیکٹرز علاقے کی مجموعی ہیت تبدیل کرنے سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔اس علاقے میں کئی تاریخی عمارتیں، عجائب گھر اور یادگار سرکاری عمارتیں ہیں۔ مودی حکومت ڈھائی ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر کے اس علاقے کو ایک نیا روپ دینے کی کوشش کررہی ہے۔اس مقصد کے لیے کئی عمارتوں کو گرا دیا جائے گا۔ پارلیمنٹ ہاس، راشڑپتی بھون (صدارتی محل)، انڈیا گیٹ اور وار میموریئل کو بھی گرا کر دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔ اس علاقے کے انہدام کے حوالے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال کی تاریخ کا امین ہے اور اس کے گرانے سے یہ تاریخی مواد ملیامیٹ ہو جائے گا۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق مودی حکومت کے دور میں مختلف شہروں، یادگاروں اور سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کا سلسلہ زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ موجودہ حکومت کی ایسی کوششوں کے حوالے سے مورخین کا کہنا ہے کہ اب ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد بھارتی عوام سے ان کی تاریخ چھیننا ہے اور یہ انجام کار شدید قسم کا قوم پرستانہ رویہ بن کر ابھرے گا۔جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایک مورخ نارائنی گپتا نے بتایا کہ کانگریس کی حکومت نے نصابی کتب میں تبدیلی کر کے برطانوی ناموں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے ساتھ ایسے مجسمے تعمیر کروائے جو ملکی تاریخ سے وابستہ تھے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی نام تبدیل کرنے کی کوششیں حقیقت میں اس ملک میں ہندو اکثریت کی چھاپ کو قانونی شکل دینا ہے۔بی جے پی اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ نے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیادی تنظیم ہے، بھارتی تاریخ کا اپنا متن مرتب کر رکھا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں مرکز اور صوبوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتوں نے کئی قصبوں کے نام تبدیل کرنے کی مہم کو تقویت دی ہے تا کہ بھارت کے ہندو ماضی کا ایک مرتبہ پھر سے احیا ہو سکے۔ایک اور مورخ راکیش بٹابیل کہتے ہیں کہ بی جے پی اور سوائم سیوک سنگھ جیسی قوم پرست تنظیمیں تاریخ از سر نو مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ ہندو قوم پرستانہ نظریے کو جائز قرار دینے کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں۔بٹابیل کے مطابق اب ان سیاسی و قوم پرست حلقوں نے مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے ساتھ ساتھ قوم پرست رہنماﺅںکی اہمیت بڑھانا بلکہ دوگنا کرنا شروع کر دی ہے۔