پاکستان کا بھارت میں ایٹمی پلانٹ لگانے کے فرانسیسی منصوبے پر اعتراض
بھارت میں یورینیم چوری کے واقعات کے پیش نظر اعتراض بے معنی نہیں: ماہرین
نئی دہلی 30مئی (کے ایم ایس)پاکستان نے بھارت میں ایٹمی بجلی گھر لگانے کے فرانسیسی منصوبے پر اپنے اعتراضات کا اعادہ کیا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق پاکستان نے فرانس کے ساتھ معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ جوہری توانائی پر مبنی چھ ری ایکٹر کونکن کے ساحل پر قائم کرے گا کیونکہ اس سے جنوبی ایشیا میں عدم اعتماد اور سلامتی کے مسائل پیدا ہوں گے۔
پاکستانی ردعمل اس وقت سامنے آیا جب فرانسیسی عہدیداروں نے موتھبیلڈ منصوبے کے بارے میں بات چیت شروع کی۔ گزشتہ مہینے فرانس نے مہاراشٹر میں چھ ایٹمی ری ایکٹر بنانے کی حتمی پیشکش کی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اعتراض بلا جواز نہیں ہے خاص طوپر اس تناظر میں کہ بھارت میں یورینیم اور دیگرخام مواد کی چوری کے واقعات بار بار منظر عام پر آئے ہیں جو ایٹمی دہشت گردی کے خطرات کا باعث بن سکتے ہیں۔ بھارت میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران 200کلو گرام سے زائد جوہری مواد چوری کیا گیا ہے جبکہ 2.5کلو گرام غیر افزودہ یورینیم صرف ایک یا دو ماہ قبل نیپال میں دو بھارتی شہریوں سے پکڑا گیا تھا۔ماہرین نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی پر زور دیا کہ وہ بھارت میں ریڈیو ایکٹیو مٹیریل پر سخت نگرانی کا نظام رکھے اور تمام ممالک کو بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے سے روک دے۔بھارت میں 1994سے 2021تک ایٹمی مواد کی چوری اور گمشدگی کے کم از کم 20واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ پاکستان میں ایسا کوئی ایک واقعہ نہیں ہوا۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت جوہری ٹیکنالوجی اور مواد کی غیر قانونی تجارت کے ممکنہ مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔ماہرین نے فرانس کو خبردار کیا کہ اگر وہ نئی دہلی کے ساتھ معاہدے کو آگے بڑھاتا ہے تو بھارت میں اس طرح کے واقعات ہو سکتے ہیں۔بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے واقعات کی ایک مختصر تاریخ یہ ہے:
نومبر 1994 میں میگھالیہ پولیس نے ڈومیاسیٹ علاقے میں چار سمگلروں کے ایک گروہ سے 2.5 کلوگرام یورینیم ضبط کیا۔ جون 1998 میں بھارتی ریاست مغربی بنگال میں پولیس نے حزب اختلاف کے ایک سیاست دان کو گرفتار کیا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ 100 کلو گرام سے زیادہ یورینیم لے کر جا رہا تھا۔ جولائی 1998 میں سی بی آئی نے تامل ناڈو میں یورینیم کی چوری کے ایک بڑے گینگ کا پردہ فاش کیا جس میں آٹھ کلو سے زیادہ جوہری مواد ضبط کیا گیا۔ اگست 2001 میں بھارتی ریاست مغربی بنگال میں پولیس نے دو افراد کو 200 گرام سے زائد نیم افزودہ یورینیم کے ساتھ گرفتار کیا۔ 2003 میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے بنگلہ دیش کی سرحد پر ایک گاؤں میں ایک گروہ کو 225 گرام یورینیم کے ساتھ پکڑا۔ دسمبر 2006 میں مشرقی بھارت میں ایک قلعہ بند تحقیقی مرکز سے تابکار مواد سے بھرا ایک کنٹینر چوری ہو گیا۔ 2008 میں ایک اور جرائم پیشہ گروہ کو کم طاقت والا یورینیم اسمگل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا ۔ اسی سال ایک اور گروہ کو سرحد پر یورینیم کا غیر قانونی ذخیرہ بنگلہ دیش منتقل کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ 2009 میں جنوب مغربی بھارت میں جوہری ری ایکٹر کے ایک ملازم نے ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق پلانٹ کی حفاظت میں بے شمار نقائص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جان بوجھ کر اپنے درجنوں ساتھیوں کو تابکار آئسوٹوپ کے ساتھ زہر دے دیا ۔ 2013 میں شمال مشرقی بھارت میں بائیں بازو کے گوریلوں نے ملک کے شمال مشرقی علاقے میں ایک سرکاری کمپلیکس سے غیر قانونی طور پر یورینیم حاصل کیا اور پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے سے پہلے اس کیس میں ملوث ایک انسپکٹر کے مطابق اسے بم بنانے کے لیے بڑے دھماکہ خیز مواد سے باندھ دیا۔ دسمبر 2015 میںسینٹر فار پبلک انٹیگریٹی نے مدراس اٹامک پاور اسٹیشن سے متصل رہائشی کمپلیکس میں ایک واقعے کی اطلاع دی تھی تاکہ عالمی توجہ بھارت کی جوہری تنصیبات کے ارد گرد سیکورٹی کے خطرات اور خلاف ورزیوں کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔ اس واقعے میں ہیڈ کانسٹیبل وجے سنگھ شامل تھا جس نے تین ساتھی افسران کو قتل کرنے کے لیے سرکاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ دسمبر 2016 میں تھانے شہر میں دو افراد سے تقریباً 9 کلو تابکار یورینیم ضبط کیا گیا تھا۔ حال ہی میں 2018 کے اوائل میں کولکتہ پولیس نے ایک کلو تابکار مواد کے ساتھ یورینیم کی اسمگلنگ کے گینگ کا پردہ فاش کیا تھا جس میں اسمگلر مبینہ طور پر تقریباً 440,000 ڈالر مالیت کا یورینیم فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ 3 جون 2021 کومشرقی ریاست جھارکھنڈ کے ضلع بوکارو میں پولیس نے سات افراد کو گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے 6.4 کلو گرام یورینیم برآمد کیا۔15 فروری 2022 کو کھٹمنڈو میں یورینیم نما مادہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے آٹھ افراد میں سے دو بھارتی بھی شامل ہیںجسے نیپال میں غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کے لیے بھارت سے لایا گیا تھا۔