بھارت، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد خود کشیاں کرنے پر مجبور
نئی دلی 20 ستمبر (کے ایم ایس)
ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ بھارت میں خودکشی کرنے والے افراد میں بڑی تعداد یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی ہے ۔
ڈوئچے ویلے جرمنی کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ گزشتہ سال بھارت میں تقریبا 1 لاکھ 64 ہزار خود کشی کے واقعات رونما ہوئے اور ان میں سے 42 ہزار خودکشی کرنے والے یومیہ مزدور ہیں۔ یعنی بھارت میں اپنی جان لینے والے ہر 4 میں سے 1شخص یومیہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور ہوتا ہے۔ دلی کے ماہر نفسیات اچل بھگت نے ڈی ڈبلیو کو بتایاہے کہ بھارت میں خود اپنی جان لینے والے افراد کی تعداد میں نمایاں طورپراضافہ ہوا ہے ۔ تاہم یہ تعداد بتائے گئے اعداد وشمار سے بھی کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ان کا کہنا تھا کہ غربت کئی طرح سے دماغی مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق بھارت میں خودکشی کے رجحانات میں اضافے کی وجہ بیروزگاری، غربت، قرض اور اجرتوں میں کمی جیسے مسائل ہیں۔اچل بھگت نے خود کشی کے بڑھتے واقعات کے محرکات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر اجرت پر کام کرنے والے افراد کو اس بات کی پریشانی رہتی ہے کہ وہ اتنی کم رقم میں اپنے اہلخانہ کی کفالت کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایسے افراد پدرانہ معاشرے میں ایک مرد ہونے کے ناطے اپنے کردار کو پورا نہ کرنے پر احساس جرم کا شکار ہوتے ہیں۔ منشیات کا استعمال اور نفسیاتی عوارض جیسے عوامل بھی یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد میں خودکشی کے واقعات میں اضافے کا باعث ہو سکتے ہیں۔بھارت کی ایک ارب 30کروڑ سے زائدآبادی میں سے تقریبا 45کروڑغیر رسمی معیشت سے منسلک ہیں۔ بھارت میں نصف سے زائد مزدور روزانہ صرف دو سو سے چار سو روپے ہی کما پاتے ہیں۔ غیر ہنر مند افراد کے لیے یہ اجرت طے شدہ معاوضے سے بھی کم ہوتی ہے، جس کے باعث یہ لوگ مقروضاور استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں ۔عظیم پریم جی یونیورسٹی اور سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں کے اشتراک سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کورونا کے باعث یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی آمدنی میں شدید کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں غربت میں بھی اضافہ ہوا۔ خواتین اور کم عمر مزدور اس صورتحال سے ناقابل تلافی حد تک متاثر ہوئے۔2020 کے آخر سے لے کر 2021 کے آوائل تک یومیہ اجرت پر کام کرنے والے زیادہ تر لوگوں کو کام کے حصول میںشدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ریئل اسٹیٹ، تعمیرات، انفراسٹرکچر اور شہری ترقی جیسے شعبوں کے منصوبوں کو کورونا وبا کے باعث دوبارہ شروع کرنے میں کافی وقت لگا۔خودکشی کی روک تھام کے بارے میں انڈین فائونڈیشن کے بانی نیلسن ونود موسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ”ذریعہ معاش کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کو اکثر نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ ان کے پاس کوئی بچت نہیں ہوتی اور وہ قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔”ماہر نفسیات ٹینا گپتا، نے جرنل آف ایپیڈیمولوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان افراد کی اجرت میں ایک ڈالر کا اضافہ خودکشی کی شرح میں 3.5سے 6 فیصد تک کی کمی ہو سکتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ کم اجرت اور خودکشی کے خطرات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ خود اپنی جان لینے کا یہ رجحان مالی تنائو، سماجی اور اقتصادی استحکام کی کمی اور قرض جیسی کمزوریوں کا ایک پیچیدہ نمونہ پیش کرتا ہے۔نئی دہلی کی ایک اور ماہر نفسیات انجلی ناگپال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اکثر لوگ اپنے خاندان کے اہم کمانے والے ہوتے ہیں، ”ان کی محدود تعلیمی یا پیشہ ورانہ مہارتوں کی وجہ سے اگر انہیں کام سے نکال دیا جاتا ہے یا انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس حالت میں نہیں ہوتے کے وہ اپنا پیشہ تبدیل کریں یا دوست احباب سے مدد طلب کریں۔’انہوں نے مزید کہا کہ اپنے کام اور مالی پریشانیوں کے باعث ایسے افراد اپنی ذاتی زندگی میں جدوجہد کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ اس طبقے میں کسی کی ذہنی صحت کے مسائل سے آگاہ رہنا کوئی ترجیح کی بات نہیں۔ لیکن سماجی اور معاشی حفاظتی اقدامات کے بغیر اور ذہنی صحت کی بہبود تک رسائی کے بغیر بہت سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔