بھارتی عدلیہ کا دوہرا معیار، بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کے 11مجرموں کی رہائی،ڈاکٹر فکتو مسلسل نظربند
نئی دلی 16 اگست (کے ایم ایس)
بھارتی ریاست گجرات میں 2002میں نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دوران مسلم کش فسادات میں مسلم خاتون کے گینگ ریپ اور ایک ہی مسلم خاندان کے سات افراد کے قتل میں ملوث11ہندوئوں کو رہا کردیا ہے ۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق میڈیا میں بلقیس بانو کیس کے نام سے مشہور اس مقد مے کے 11ہندو مجرموں کو ملک کے یوم آزادی پر قیدیوں کی سزائوں میں کمی کے ریاستی حکومت کے فیصلے پر رہا کیاگیا ہے ۔ ان خطرناک مجرموں کے بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت قائم کی گئی ایک مقامی کمیٹی کی سفارش پر رہا کیاگیا ہے ۔سپریم کورٹ نے قیدیوں کی سزائوں میں کمی کی نام نہاد پالیسی کے تحت ریاستی حکام کو قبل از رہائی کیلئے مجرموں کی عرضداشتوں پر فیصلہ کرنے کیلئے ایک مقامی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی تھی ۔نریندر مودی کے وزارت اعلیٰ کے دور میں 2002میں گجرات فسادات کے دوران احمد آباد کے نواحی گائوں میں ہندوئوںنے 5ماہ کی حاملہ ایک 20سالہ مسلم لڑکی بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی تھی اور اس کے خاندان کے 7افراد کو قتل کردیاتھا۔ 21جنوری 2008کو ممبئی کی ایک اسپیشل سی بی آئی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور خاندان کے 7افراد کے قتل کے مقدمے میں 11ہندوئوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، بعد میں بمبئی ہائی کورٹ نے قصورواروں کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔ عمر قید کی سزا پانے والے ایک مجرم نے 15سال سے زائد جیل کی سزا کانٹنے کے بعد قبل از وقت رہائی کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی ۔ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو سزا میں چھوٹ کے معاملے پر غور کرنے کی ہدایت دی تھی۔ قیدیوں کی رہائی کیلئے بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کی گئی کمیٹی نے بلقیس بانو کیس کے 11ہندومجرموںکی رہائی کا فیصلہ کیا ، جس کے بعد حکومت نے کمیٹی کی سفارشات منظور کرتے ہوئے تمام 11خطرناک ہندو مجرموں کو رہا کردیا ہے۔ قانونی ماہرین نے جیل میں 14سال کی سزا کاٹنے ، عمر، جرم کی نوعیت، جیل میں برتائواور اسی نوعیت کے دیگر عوامل کے تحت خطرناک قیدیوں کی سزائوں میں کمی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاہے کہ اس معافی کا اطلاق متعد د دیگر لوگوں خصوصا غیر قانونی طورپربڑی تعداد میں نظر بند مقبوضہ کشمیر کے قیدیوں پر کیوں نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ قانونی نظام اور عدلیہ نے کسی بھی مرحلے پر شہریوں کو تحفظ فراہم نہ کرکے فسطائی پالیسیوں کے نفاذ میں سہولت فراہم کی ہے۔انہوں نے ڈاکٹر محمد قاسم فکتوہی کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر فکتو کا شمار مقبوضہ کشمیرمیں طویل ترین عرصے تک نظربند رہنے والے قیدیوں میں ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر فکتو کی غیر قانونی نظربندی کو 28برس کا عرصہ ہو چکا ہے اوراس دوران انہوںنے اسلامک اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویشن اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ڈاکٹر قاسم فکتو کے کیس سے ظاہرہوتا ہے کہ کس طرح کشمیری مسلمانوںکو امتیازی سلوک کا سامنا ہے ۔ڈاکٹر قاسم فکتو کے خلاف مقدمے کی سماعت 1993میں دہشت گردی اور ٹاڈا ایکٹ کے دفعات کے تحت شروع ہوئی تھی۔ 2001میں جموں کی ٹاڈا عدالت کی طرف سے انہیں اور دیگر دو ملزمان کو بری کرنے کے بعد، قابض انتظامیہ نے اس حکم کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔بھارتی سپریم کورٹ نے دوران حراست ملزمان سے جبری طورپر تشدد کے زریعے لئے گئے اعترافی بیانات پر انحصار کرتے ہوئے جنوری 2003 میں ڈاکٹر قاسم فکتو کو و عمر قید کی سزا سنائی تھی جس کے بعد سے وہ مسلسل نظربند ہیں۔اب انکی اس سزا کو تادم مرگ تک بڑھادیاگیا ہے۔