پاکستان

پاکستان خطرات کے باوجود پرامن جنوبی ایشیا کے ہدف کے حصول کے لیے پرعزم ہے: منیر اکرم

اقوام متحدہ 27ستمبر(کے ایم ایس)پاکستان نے کہا ہے کہ وہ خطرات کے باوجود پرامن جنوبی ایشیا کے ہدف کے حصول کے لیے پرعزم ہے اور 1974 میں اس سلسلے میں جنوبی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے متعدد تجاویز پیش کی گئیں لیکن بدقسمتی سے مناسب ردعمل نہیں آیا۔
یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے بین الاقوامی دن پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔پاکستانی مندوب نے بھارت کا نام لیے بغیر کہا کہ جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت ایک ریاست نے 1974میں متعارف کرائی تھی۔اسی ریاست نے 1998میں جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے دھماکوں کا آغاز بھی کیا تھا۔پاکستان کو سٹریٹجک استحکام کی بحالی اور اس جارحیت کو روکنے کے لیے اس کا جواب دینے پر مجبور کیا گیا تھا ۔ کیونکہ پاکستان کو 11مئی 1998کے ہمارے ہمسایہ ملک کے جوہری دھماکوں کے فوراً بعد دھمکی دی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جنوبی ایشیا میں سٹریٹجک ریسٹرینٹ رجیم (ایس آر آر)کے قیام کی تجویز پیش کی جس کی بنیاد باہمی تنازعات کے حل، جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی کے عدم پھیلائواور روایتی ہتھیاروں کے توازن پر ہوگی۔منیر اکرم نے کہا کہ یہ تجویز اب تک میز پر موجود ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی سکیورٹی پالیسی تحمل ،ذمہ داری اور خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ سے گریز ہے۔ انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف اور عدم پھیلائو کے چیلنجزکے منصفانہ اور مساویانہ حل کو فروغ دینے کی تمام بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جوہری تخفیف اسلحہ پر بامعنی پیش رفت صرف جوہری ہتھیار رکھنے والی سرکردہ ریاستوں کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے جن میں کسی بھی ریاست یا ریاستوں کے گروپ کے عالمی یا علاقائی تسلط کی مزاحمت، امن و سلامتی کو درپیش خطرات وعلاقائی تنازعات کا حل ، علاقائی استحکام کے ڈھانچے کی تعمیر، علاقائی فوجی اتحاد وں کی تشکیل سے گریزاور تمام ریاستوں کے لیے یکساں تحفظ کو یقینی بنانا شامل ہے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ عالمی اصولوں کے اطلاق میں امتیازی نقطہ نظر اور دوہرا معیارنہ صرف جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کی عالمی کوششوں کو کمزور کرتا ہے بلکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر مبنی عدم پھیلا ئوکے نظام اور بین الاقوامی نظام کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث ہے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button