مودی حکومت انسداد تجاوزات مہم کے بہانے کشمیری عوام کو نشانہ بنا رہی ہے
سرینگر20مارچ(کے ایم ایس) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں فسطائی مودی کی بھارتی حکومت نے ایک بڑا حملہ شروع کی کردیا ہے جس کا مقصد انسداد تجاوزات مہم کے نام پر مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں سے بے دخل کرنا ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق اس مہم سے بلالحاظ مذہب و ملت اور ذات ومسلک تمام کشمیری عوام میں خوف ودہشت پیدا ہواہے کہ وہ بیرونی لوگوں کی آمد سے ایک غلام اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔مقامی لوگوں کا کہناہے کہ اس مہم سے غریب لوگ بھی متاثر ہو رہے ہیں جن کے پاس معمولی سی زمینیں ہیں جو ان کے زندہ رہنے کا واحد ذریعہ ہے۔ایک مقامی تاجر فردوس صوفی نے بتایاکہ میں گزشتہ 30سال سے سرینگر میںایک دکان چلا رہا ہوں۔ ان دہائیوںمیں مجھے کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ یہ سرکاری سرزمین ہے۔ میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے، میں اب کہاں جائوں؟فردوس کی والدہ سارہ صوفی نے چیختے ہوئے کہاکہ میں دل کی مریضہ ہوں، انتظامیہ میرے بیٹے کی دکان گرا رہی ہے۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ ہمارے پاس یہ جگہ صرف اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے ہے۔ اگر وہ اسے گرا دیں گے تو میں یہیں مر جائوں گی۔اہلخانہ کا کہنا ہے کہ بلڈوزرکے دہلیز پرپہنچنے سے پہلے انہیں بے دخلی کا کوئی نوٹس نہیں ملا۔انہوں نے کہاکہ ہم سو رہے تھے جب ہم نے سنا کہ لوگ ہماری دکان کے سامنے جمع ہیں۔ہمیں حکام کی طرف سے بے دخلی کاکوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے حکام کواس زمین کے کاغذات بھی دکھائے لیکن کسی نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔بلڈوزر نے دوسری دکان گرانا شروع کیا تو ایک خاندان اپنے عارضی خیمے سے باہر نکلا ۔ انہوں نے اپنے گھر کی حفاظت کے لیے انسانی زنجیر بنائی۔ سکینہ نامی خاتون نے کہاکہ ہم یہاں گزشتہ 20سال سے کام کر رہے ہیں۔ حکومت ہمارا عارضی گھر گرا رہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم سڑکوں پر رہیں، لیکن ہماری تین چھوٹی بیٹیاں ہیں۔ ہم کہاں جائیں گے؟ ۔مودی حکومت نے انسداد تجاوزات مہم کے دوران وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں کئی سینئر رہنمائوں، تاجروں اورعام لوگوں سے ہزاروں کنال اراضی،گاچرائی، عید گاہیں اور اوقاف کی زمینیں چھین لیں۔ سرینگر کے علاقے مہجور نگر میں اپنی تباہ شدہ دکان پر کھڑے سمیر کاکہنا ہے کہ ہم چھ افراد یہاں اسکریپ کا کاروبار کرتے تھے جبکہ دیگر150افراد ہمارے لیے کام کرتے تھے۔ انتظامیہ نے بغیر کسی نوٹس کے ہماری دکانوں کوگرانا شروع کر دیا۔ یہی ہمارا ذریعہ معاش تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکارپٹیل نے سرینگر، بڈگام، اسلام آباد، کپواڑہ اور بارہمولہ میں گھروں اور کاروباروں کی مسماری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مسماری مہم انسانی حقوق کی ظالمانہ خلاف ورزیوں میں توسیع معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسماری کی یہ مہم جبری بے دخلی کے مترادف ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ گورنر ہائوس اور بادامی باغ چھائونی بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ تجاوزات کے خلاف مہم ہماری زمینوں پر قبضہ کرنے اور ہماری آبادی کے تناسب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی ایک اور کوشش ہے۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نام نہاد انسداد تجاوزات مہم مودی کے منصوبے کا حصہ ہے، جس کا آغاز اگست 2019میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے ساتھ ہوا تھا تاکہ لوگوں کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا جا سکے۔