این آئی اے کے ہاتھوں کشمیری صحافی کی گرفتاری کی شدید مذمت
نئی دہلی22مارچ(کے ایم ایس)بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے ا ین آئی اے کی طرف سے کشمیری صحافی عرفان معراج کی ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتاری پر صحافیوں، سیاست دانوں اور صحافتی اداروں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی شدید مذمت کی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سرینگر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی نے ایک غیر ملکی میڈیا چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ گرفتاریاں خوف ودہشت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرانہوں نے کہا کہ کبھی کبھی آپ کو لگتا ہے کہ ہر صحافی خاموش ہے اور کسی کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔ لیکن پھر اس طرح کی گرفتاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ حالات معمول پر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کوئی کچھ نہیں لکھ رہا اور نہ کوئی بول رہا ہے لیکن پھر بھی بہت خوف ہے۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے ٹویٹرپر گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون سمیت دیگر قوانین کا مسلسل غلط استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ عمل بذات خود ایک سزا بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں جہاں جعلی عاملوں کو کھلی آزادی ہے، عرفان معراج جیسے صحافیوں کو سچ بولنے اور اپنا فرض ادا کرنے پر گرفتار کیا جاتا ہے۔کشمیر جرنلسٹ فیڈریشن نے بھی عرفان معراج کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ معراج کو سرینگر سے نئی دہلی منتقل کر دیا گیا ہے۔پریس کلب آف انڈیا نے ایک ٹویٹ میں عرفان معراج کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ پریس کلب آف انڈیا نے کہاکہ ہم صحافیوںپر یو اے پی اے کے نفاذ کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی عرفان معراج کو گرفتار کرنے میں این آئی اے کی طرف سے اس کالے قانون کا غلط استعمال اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ ہم ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
بھارت میں آزادی صحافت کی وکالت کرنے والی ایک آزاد تنظیم فری سپیچ کلیکٹیو نے کہا کہ یہ گرفتاری اس بات کا خطرناک اشارہ ہے کہ حکام آزاد ی صحافت کو روکنے کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں۔ اس کی شریک بانی گیتا سیشو نے کہا کہ کالے قانون یو اے پی اے کے تحت معراج کی گرفتاری کے نتیجے میں اس طرح کی خبریں شائع ہونا بند ہو جائیں گی جو انہوں نے شائع کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں صحافیوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، چھاپے مارے جاتے ہیں، وجہ بتائو نوٹس جاری کیے جاتے ہیں، ہوائی جہازوں سے اتارا جاتا ہے اور ملک دشمن قراردے کر بدنام کیا جاتا ہے۔ حکام کو چاہیے کہ وہ کشمیر میں آزاد صحافیوں کو نشانہ بنانا بند کریں ۔
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے ایک بیان میں کہا کہ کشمیر میں میڈیا کی آزادی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ گلڈ نے عرفان معراج کی حالیہ گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کے خلاف کالے قانون یواے پی اے کے بے دریغ استعمال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔پیرس میں قائم صحافیوں کی تنظیم ”رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز”نے اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں عرفان معراج کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرزکے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل باسٹرڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ این آئی اے کے ہاتھوں عرفان معراج کی گرفتاری کے بعدانہیں ممکنہ طورپر عمر قید کی سزا کا سامناہوسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ عرفان معراج ایک تجربہ کار، ذمہ دار اور محتاط رپورٹر ہیں جن کوجیل میں نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے خصوصی قوانین کو صحافیوں کی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ عرفان کے خلاف لگائے گئے الزامات کے واضح طور پر جھوٹے کے پیش نظر ہم بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا حکم دیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا بورڈ کے سربراہ آکار پٹیل نے ایک بیان میں کہا کہ دہشت گردی کے الزامات کے تحت عرفان معراج کی گرفتاری ایک دھوکہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ گرفتاری جموں و کشمیر میں طویل عرصے سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور میڈیا کی آزادی پر پابندیوں اور سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈائون کی ایک اور مثال ہے۔ کشمیر میں آزادی اظہار اور انجمن کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ظلم و جبر بند ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ انسانی حقوق کے جائز کام کی جرم بنانا انتہائی تشویشناک ہے اور حکام کو اسے فوری طور پر ختم کرنا چاہیے۔انسانی حقوق کے کارکنوںکی صورتحال کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ معراج کی گرفتاری پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں اور اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ معراج کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے پر انتقام کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔