بھارت : جھارکھنڈ میں ہندوتوا تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
نئی دہلی 16اگست(کے ایم ایس) بھارتی ریاست جھارکھنڈ میں سیاسی اور سماجی کارکنوں نے نفرت انگیز تقاریر کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے پر ہندوتوا تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سیاسی و سماجی کارکنوں کے ایک وفد نے جنادھیکر مہاسبھا کے بینر تلے رانچی میں پولیس کے ڈائریکٹر جنرل اجے کمار سنگھ اور چیف سکریٹری سکھدیو سنگھ سے ملاقات کی اور ہندوتوا تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ وفد نے شکایت درج کراتے ہوئے ہندوتوا لیڈر بھیرو سنگھ کی ویڈیوز بھی پیش کیں۔شکایت میں کہاگیا ہے کہ ہم جھارکھنڈ کی مختلف سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور کارکن آپ کی توجہ مذہبی نفرت پھیلانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کونقصان پہنچانے کے لیے منعقد کیے جانے والے عوامی اجتماعات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی ذیلی تنظیمیں وشو اہندو پریشد اور بجرنگ دل کے رہنما عوامی اجتماعات منعقد کرنے کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریرکر رہے ہیں۔شکایت میں ایک ہندوتوا لیڈر بھیرو سنگھ کی مثال دی گئی ہے جو یوٹیوب چینل چلاتے ہیں اور اس پر اپنی تقاریر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ بھیروسنگھ نے 24جولائی کو رانچی میں منعقدہ ایک عوامی اجتماع میں عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی۔ اجتماع میں انہوں نے منی پور تشدد کے بارے میں بے بنیاد بیان دیا۔ شکایت کے مطابق بھیرو سنگھ نے مسلمانوں کے لیے قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے، لوگوں کوتشدد کے لئے اوراقلیتوں کے خلاف اکسایا اور ہندو راشٹر کے قیام کا مطالبہ کیا۔رانچی شہر اور جھارکھنڈ کے دیہاتوں میں اس طرح کے کئی عوامی اجتماعات میںبھیرو سنگھ نے اس طرح کے متنازعہ بیان دیے۔ اس طرح کے اجتماعات کی ویڈیوز یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دی گئیں۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ مختلف اجتماعات میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی کالیں دی گئیں اور اس طرح کی تقریبات کے انعقاد سے جھارکھنڈ کے سماج کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔وفد نے بھارتی سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے بعد بھی پولیس انتظامیہ کی جانب سے ان اجتماعات کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ وفدنے ان عوامی اجتماعات اور ویڈیوز کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا ۔ وفد نے کہاکہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 2024کے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات سے پہلے اس طرح کے اجتماعات میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔