بھارت نے کرکٹ کو بھی اپنی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھادیا
عبدالرشید شکور
اس وقت ایشیا کی تمام اہم ٹیمیں اس خطے کے ایک اہم ایونٹ یعنی ایشیا کپ میں مدمقابل ہیں لیکن اس بار یہ ایشیا کپ جس مضحکہ خیز صورت حال سے دوچار ہوا ہے اس کی وجہ یہی انوکھے لاڈلے صاحب بنے ہیں جنہیں ہم اور آپ سب جے شاہ کے نام سے جانتے ہیں۔جے شاہ بی سی سی آئی یعنی انڈین کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری ہیں اور ساتھ ساتھ وہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا تعارف یہ ہے کہ وہ اس وقت انڈین سیاست میں سب سے طاقت ور سیاست دان سمجھے جانے والے امت شاہ کے بیٹے ہیں اور اسی سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے وہ بی سی سی آئی میں آئے۔اگرچہ اس وقت بی سی سی آئی کے صدر سابق ٹیسٹ کرکٹر راجر بنی ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ تمام تر فیصلے جے شاہ کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ امت شاہ ہی کی ناراضی کی وجہ سے سارو گنگولی کو بی سی سی آئی کی صدارت چھوڑنی پڑی تھی۔جے شاہ بی سی سی آئی کے ساتھ ساتھ ایشین کرکٹ کونسل کو بھی ون مین شو کی طرح چلا رہے ہیں۔یوں بھی ایشین کرکٹ کونسل میں اگر انڈیا کے کسی فیصلے پر کوئی آواز اٹھتی ہے تو وہ پاکستان کی طرف سے ہی اٹھتی ہے ورنہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان تو جے شاہ کی ہر ہاں پر ہاں اور ہر نہ پر نہ کہنے کے لیے بیٹھے ہیں جس کا اندازہ اس ایشیا کپ کے آغاز سے پہلے پاکستان کی میزبانی کے معاملے پر سب کو بخوبی ہوچکا ہے۔یہ بات سبھی کو معلوم تھی کہ پاکستان میں ہونے والے کسی بھی بین الاقوامی یا ایشیائی سطح کے مقابلے میں انڈین کرکٹ ٹیم کی شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جب بھی پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی بات آتی ہے تو بی سی سی آئی کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہماری حکومت ہمیں اجازت دے گی تو ہم پاکستان کے ساتھ کھیلیں گے۔اسی لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے جے شاہ کے سامنے ہائبرڈ ماڈل کی شکل میں یہ فارمولا رکھا تھا کہ ایشیا کپ میں انڈین ٹیم اگر پاکستان آ کر کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہوتی تو وہ اپنے میچ کسی نیوٹرل مقام پر کھیل لے اور باقی ٹورنامنٹ پاکستان میں ہو جائے۔لیکن درون خانہ سیاست میں ماہر جے شاہ نے بنگلہ دیش اور سری لنکا کے کرکٹ بورڈز کو بھی انڈین کرکٹ بورڈ کی طاقت ور حیثیت کے بل پر اپنے ساتھ ملا لیا اور بنگلہ دیش اور سری لنکا کے کرکٹ بورڈز نے بھی پر نکال لیے۔پاکستان کرکٹ بورڈ چاہتا تھا کہ ایشیا کپ کے پاکستان سے باہر میچ متحدہ عرب امارات میں کرائے جائیں لیکن بنگلہ دیش نے یہ مضحکہ خیز جواز پیش کر دیا کہ ستمبر میں متحدہ عرب امارات میں گرمی بہت زوروں پر ہو گی حالانکہ اسے یاد دلایا گیا کہ اسی موسم میں وہاں پہلے بھی ایشیا کپ ہوچکا ہے۔بادل نخواستہ پاکستان کو ایشیا کپ کے نیوٹرل مقام کے طور پر سری لنکا کو قبول کرنا پڑا۔جے شاہ کی ہٹ دھرمی اور پاکستان کو کچھ نہ سمجھنے کی دوسری مثال اس وقت سامنے آئی جب ایشیا کپ کے شیڈول کا اعلان لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں ہونا تھا لیکن اس تقریب سے کچھ دیر پہلے جے شاہ نے انڈیا میں بیٹھے ہوئے خود یہ شیڈول جاری کر دیا۔اس ضمن میں ایک اور تنازع اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کی آفیشل جرسی پر میزبان پاکستان کا نام ہی غائب کردیا گیا جبکہ ماضی میں ہر ایشیا کپ کے میزبان کا نام اس جرسی یا شرٹ پر درج رہا ہے لیکن شاید انڈین کرکٹرز اس ٹورنامنٹ میں ایسی شرٹ پہننا نہیں چاہتے تھے جس پر پاکستان کا نام درج ہو۔ان تمام بدمزگیوں کے باوجود پاکستان نے ایشیا کپ کے چاروں میچوں کی میزبانی اچھے انداز میں کی بلکہ اس دوران انڈین کرکٹ بورڈ کے صدر راجر بنی اور نائب صدر راجیو شکلا بھی لاہور آئے اور پاکستان کی روایتی مہمان نوازی کا کھلے دل سے اعتراف کرکے گئے لیکن دوسری جانب جے شاہ کی ہٹ دھرمی جاری رہی۔یہ بات سب جانتے تھے کہ سری لنکا میں اس موسم میں کرکٹ کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بارش ہوتی ہے۔یہ بات ایشین کرکٹ کونسل کو پہلے ہی سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ میچ پالیکلے اور کولمبو کی بجائے دمبولا یا ہمبنٹوٹا میں کرائے جا سکتے ہیں لیکن اسے نہ مانا گیا اور سب نے دیکھا کہ ایشیا کپ کا سب سے بڑا میچ یعنی انڈیا بمقابلہ پاکستان بھی بارش کی نذر ہو گیا۔نہ صرف یہ بلکہ کولمبو میں مستقل بارش کی پیش گوئی کے بعد ان میچوں کو ہمبنٹوٹا منتقل کرنے کی باتیں ہونے لگیں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اس بارے میں مطلع بھی کردیا گیا۔لیکن جے شاہ نے فورا پینترا بدلا اور یہ فیصلہ سنا دیا کہ بارش ہونے کے باوجود یہ میچ کولمبو سے کہیں اور منتقل نہیں ہوں گے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس بارے میں ایشین کرکٹ کونسل کو ایک خط بھی لکھا اور یہ اسی دبا ئوکا نتیجہ ہے کہ 10 ستمبر کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے میچ کے لیے ریزرو ڈے رکھ دیا گیا ہے اور اگر اتوار کے روز بارش کی وجہ سے یہ میچ نہیں کھیلا جاتا ہے یا نامکمل رہتا ہے تو پھر یہ پیر کے روز ہو گا۔یہاں اس بیان بازی کا بھی ذکر ہوجائے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینیجمنٹ کمیٹی کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی اور جے شاہ کے درمیان ہوئی۔نجم سیٹھی نے اپنے ایک (سابقہ ٹوئٹر)اکائونٹ پر جے شاہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایشیا کپ کے سلسلے میں جتنی بھی تجاویز اور پیشکشیں کیں وہ مسترد کردی گئیں اور اس کا جواب جے شاہ ہی دے سکتے ہیں۔جے شاہ اس پر خاموش نہیں رہے اور انہوں نے ایک لمبا چوڑا بیان جاری کردیا جس میں انہوں نے کہا کہ غیرملکی ٹیمیں سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے پاکستان آنے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہی تھیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ متحدہ عرب امارات کے گرم موسم میں ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ تو ممکن تھا لیکن 50 اوورز کی کرکٹ ممکن نہیں تھی۔جے شاہ نے اپنے بیان میں پاکستان کی سکیورٹی کے ساتھ معاشی صورت حال بھی شامل کر دی۔اگر دیکھا جائے تو جے شاہ کا یہ بیان خاصا مضحکہ خیز ہے۔جہاں تک سکیورٹی کی صورت حال کا تعلق ہے تو کیا انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ پچھلے دو تین برسوں کے دوران آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ جیسی بڑی ٹیمیں پاکستان آ کر پرسکون ماحول میں کھیل کر خوش خوش وطن واپس گئی ہیں۔اگر تازہ ترین سکیورٹی کا احوال جے شاہ صاحب کو جاننا ہے تو وہ اپنے ہی دو صاحبان راجیو شکلا اور راجر بنی سے معلوم کر لیتے۔جہاں تک متحدہ عرب امارات کے گرم موسم میں 50 اوورز کی کرکٹ نہ ہونے کا تعلق ہے تو وہ حقائق کو نہیں چھپا سکتے کیونکہ اسی ستمبر کے گرم موسم میں متحدہ عرب امارات میں 2018کا ایشیا کپ کھیلا گیا تھا اور وہ ٹی ٹوئنٹی نہیں بلکہ 50 اوورز فارمیٹ کا تھا۔ایشیا کپ کا مزا تو بارش اور جے شاہ کی ہٹ دھرمی سے کرکرا ہو چکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ورلڈ کپ میں کیا کچھ ہونے والا ہے کیونکہ ورلڈ کپ کے میچوں کی شیڈولنگ بھی بی سی سی آئی کے کنٹرول سے باہر رہی ہے اور متعدد میچوں کو ری شیڈول کیا گیا ہے۔اب صرف انتظار اس بات کا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم انڈیا میں کیسی کارکردگی دکھاتی ہے۔ جس طرح بابراعظم بیٹنگ میں اور شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رئوف کا تکونی پیس اٹیک حریف ٹیموں پر بجلی بن کر گر رہا ہے انڈین شائقین کے لیے یہ ایک خوبصورت منظر ہوگا۔سابق انڈین کرکٹر عرفان پٹھان اس وقت سوشل میڈیا پر جس شدت سے پاکستانیوں کے ٹی وی سیٹس ٹوٹنے کی بات کرتے ہیں وہ تھوڑا سا انتظار کرلیں انہیں پتہ چل جائے گا کہ کس کے ٹی وی سیٹس ہی نہیں دل بھی ٹوٹیں گے۔