نومبر 1947جب جموں کے لاکھوں مسلمانوں کا اندوہناک قتل ِ عام کیا گیا
کے ۔ایس ۔کشمیری
جموں، صوبہ پنجاب کا قریب ترین علاقہ ہے جبکہ قیام پاکستان سے قبل بھی جموں کے مسلمانوں کی پنجاب کے مسلمانوں سے رشتے داریاں موجود تھیں۔ جموں میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے عین ممکن تھا کہ الحاق پاکستان کے لئے یہاں کے مسلمان تحریک شروع کردیں گے، لیکن تحریک شروع کرنے سے پہلے ہی مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔
جموں کے نواحی علاقوں بیر نگر، سلنی، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے میں شروع ہوچکا تھا۔جبکہ جموں میں مسلمانوں کا سب سے خطرناک قتلِ عام 4 نومبر 1947کو بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل، وزیر دفاع سردار بلدیو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ کے دورہ جموں کے بعد شروع ہوا۔ جموں کے اس قتل عام کی اصل سازش انہی کرداروں نے کی۔ اس سازش کے تحت بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ پاکستان جانے کے خواہش مند مسلمان 5 نومبر کو پولیس لائنز میں پہنچ جائیں۔ چنانچہ ان نہتے اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو 36 ٹرکوں میں سوار کیا گیا۔ اس قافلے کو براستہ آر ایس پورہ سیالکوٹ لے جانے کے بجائے سانبہ لے جایا گیا جہاں پر بندوقوں،تلواروں، بھالوں اور برچھیوں سے لیس تربیت یافتہ ہندو دہشت گردوں نے ان کا قتل عام کیا ۔
یوں تو جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کی مہم ستمبر کے آخراور اکتوبر کے پہلے ہفتے سے ہی شروع ہو گئی تھی تاہم پانچ اور چھ نومبر کی رات جموں اور اس کے آس پاس کے مسلمانوں پر قیامت کا منظر پیش کر رہی تھی ۔ ڈوگرہ مہاراجہ کی فوج کی حفاظت میں پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے قافلوں کو ہجرت کے دوران بڑی تعداد میں قتل عام کا نشانہ بنایا گیا،انسانوں کا قتل عام، بھیڑ بکریوں کی طرح کیا گیا۔ سو یا دو سو نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کو ذبح کیا گیا۔ یہ ظلم زمانہ قدیم کے کسی بادشاہ نے نہیں کیا، بلکہ یہ قتل عام تقسیم برصغیر کے وقت ہندو بلوائیوں کے ذریعے جموں میں کرایا گیا۔ جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں جموں، اکھنور، راجپورہ، چھنی، کھٹوعہ، سانبہ، اودھم پور اور ریاسی میں مسلم آبادی کو ختم کردیا گیا جس کی تصدیق عالمی میڈیا کی اس وقت کی رپورٹنگ سے بھی ہوتی ہے۔
اس قتل عام کو برطانوی روزنامہ دی ٹائمز لندن نے رپورٹ کیا۔ اخبار کے مطابق جموں میں 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئن اسٹیفن نے اپنی کتاب میں قتل عام کی تفصیل لکھی۔ ان کے مطابق 1947 کی خزاں تک 2 لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔
صحافی ہوریک الیگزینڈر نے اس قتل عام کی منظرکشی کرتے ہوئے لکھا جموں کے مسلمانوں نے پاکستان میں شمولیت کیلیے اپنی دولت، رشتے دار، زندگی اور جذبات سب قربان کردیے۔
برطانوی مورخ الیسٹر لیمب نے اپنی کتاب میں لکھا ہندوئوں اور سکھوں کے خونی جتھے جموں میں داخل ہوگئے، جنہوں نے وحشیانہ قتل و غارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا اور لاکھوں لوگوں کو مغربی پنجاب (پاکستان)کی طرف دھکیل دیا۔
سرینگر کے سینئر صحافی اور مصنف جناب پی جی رسول اپنی کتاب مسئلہ کشمیر کی تاریخی اصلیت میں لکھتے ہیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی خبروں، نہرو، مہاراجہ ہری سنگھ، بلدیو سنگھ، سردار پٹیل، مہرچند مہاجن، شیخ عبداللہ اور اس المیے کے دوسرے کرداروں کی اگست تا نومبر 1947 کے سرکاری مراسلوں، ریکارڈغرض تمام تر شواہد سے جموں کے قتل عام میں بھارتی سرکاری سرپرستی ثابت ہوتی ہے۔
کشمیر ٹائمز’ کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا جموال کا کہنا ہے کہ صوبہ جموں میں ہونے والے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ سنہ 1947 کے قتل عام سے صرف جموں ضلع کے کئی مسلم اکثریتی دیہات میں صرف ہندو یا سکھ آبادی باقی رہ گئی۔
آج بھی کشمیری عوام کی نسل کشی کے لئے تیاریاں کرلی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار تب بھی خاموش تھے اور آج بھی ان کی زبانیں گنگ ہیں۔بھارت نے 2019کے بعد کشمیرکی مسلم شناخت ختم کرنے کی سازش کی اوروہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کررہاہے،پورے مقبوضہ جموں وکشمیر کو ایک جیل میں بدل کر مظالم کی انتہاکررہاہے۔ بھارت کا وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ مسلسل جنگ کی دھمکیاں دے رہاہے۔ بھارت کے جنگی جرائم دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے، دنیا کی حمایت حاصل کر نے اورمودی کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے جارحا نہ اور منظم سفارتی مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ 5اگست 2019کے بعد سے بھارتی ہندوتوا حکومت نے مقامی لوگوں کے جائیداد کے حقوق چھیں لئے ہیں جس سے کشمیریوںمیں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔76سال گزر جانے کے بعد بھی کشمیریوں کی مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ کشمیری اب ڈوگرہ راج میں نہیں رہ رہے لیکن بھارت کے غیر قانونی قبضے کے باعث ان کے حالات بدسے بدتر ہو چکے ہیں۔ اس وقت بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں تقریبا دس لاکھ فوجی تعینات کررکھے ہیں جس کی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے زیادہ فوجی جمائو والا علاقہ بن چکا ہے اوریہ فوجی انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں۔آج بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو ہری سنگھ نے اپنائی تھی۔ ریاست جموں وکشمیر کے لوگ ہر سال 6نومبر کو یوم شہدائے جموں اس تجدید عہد کے ساتھ مناتے ہیں کہ ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اورحصول مقصدتک جدوجہد آزادی کو جاری رکھا جائے گا ۔