مقبوضہ جموں وکشمیر ایک نگران ریاست
: محمد شہباز
فسطائی مودی حکومت جہاں اہل کشمیر کی مکمل طور پر زبان بندی کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر میں قبرستان کی خاموشی کو بھارت کی کامیاب حکمت عملی سے تعبیر کرتی ہے وہیں اب کشمیری عوام میں خوف ودہشت پیدا کرنے اور اظہار رائے کے تمام ذرائع کا گلہ گھونٹنے کیلئے ٹیکنالوجیز کو بطورہتھیار استعمال کر رہی ہے تاکہ کشمیری عوام کی روز مرہ نقل و حمل پر مکمل نظر رکھی جاسکے ،جس کا اس کے سوا کوئی اور مقصد کار فرما نہیں ہے کہ اہل کشمیر کے سینوں میں بھارت کے خلاف پائی جانے والی نفرت اور غم وغصے کا اظہار کرنے سے روکا جاسکے۔
گوکہ بھارت اور اس کے حواری مدتوں سے کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کی ظالمانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں مگر انہیں بار بار زچ ہونا پڑتا ہے۔اب بھارت کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کیلئے ایک نئی منصوبہ بندی کرنے جارہا ہے۔جس سے سنسر شپ کا نام دیا جارہا ہے۔یہ سنسر شپ ہے کیا اور اس کا استعمال کشمیری عوام کی روز مرہ زندگیوں پر کیا اثرات مرتب کرے گا؟یہ اہم سوال ہے جس کا جواب اہل کشمیر کے ساتھ ساتھ اس قوم کے ذی حس اور اہل دانش نے تلاش کرنا ہے۔گوکہ کشمیری عوام گزشتہ 76 برسوں سے زائد عرصے سے بھارت کے خلاف حالت جنگ میں ہیں،جس میں اس قوم کے اعلی دماغ کو بھارت پہلے ہی نشانہ بناچکا ہے جس کا ثبوت مقبوضہ جموں و کشمیر کے چپے چپے پر 600 قبرستان ہیں ۔اس کے علاوہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے طول عرض میں چار ہزار گمنام قبریں اور ان قبروں میں مدفون ہزاروں نامعلوم کشمیری بھارتی درندگی اور بربریت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔بھارت اور اس کے حواریوں پر ایک خوف طاری ہے جس سے وہ تمام تر کوششوں کے باوجود باہر نہیں نکل پاتے۔ اب ایک اور حربہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں استعمال کرنے جارہا ہے جس سے عوام کی نقل و حمل پر نگرانی کا نام دیا گیا ہے۔بھارت پہلے ہی طویل عرصے سے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں سنسر شپ اور نگرانی کا استعمال کر رہا ہے اور یوں کشمیری عوام کو عالمی قوانین کے تحت حاصل رازداری حقوق کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کیلئے کئی سطحوں کی نگرانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی جیسے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں کہ اب کشمیری عوام کی رازداری پر بھی پہرے بٹھائے جائیں گے جس کا باقاعدہ آغاز 06 نومبر سے کیا جاچکا ہے ۔ مودی حکومت نے کشمیری عوام کی روزمرہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی پولیس کوGPS Global Positioning System ٹریکر سے لیس کرنے کے علاوہ بھارتی پولیس کو اپنے وطن پر غاصبانہ بھارتی قبضے کے خلاف اختلاف رائے کا اظہار کرنے والے کشمیری عوام پر نظر رکھنے کیلئے سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارمز تک رسائی بھی دی ہے۔اس سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیرمیں 05اگست 2019 سے سیاسی اختلاف رائے کا اظہار کرنے والی سوشل میڈیا پوسٹس پر گرفتاریاں ایک معمول بن چکی ہیں اوریہاں تعینات بھارتی فوجی کشمیری عوام کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کیلئے ان کے موبائل فون اکثر و بیشتر ضبط کرتے رہتے ہیں۔ کشمیری عوام کا قابض بھارتی انتظامیہ کی جانب سے ان کی نگرانی اور دہشت گردی کے نام پر باقاعدگی سے ان کی رازداری کی خلاف ورزی کا بار بار تجربہ کیا جارہا ہے۔گوکہ بھارت کے تمام حربے اور ہتھکنڈے ایک کے بعد ایک ناکامی سے دوچار ہورہے ہیں البتہ اب کی بار مودی اور اس کے حواری کچھ نیا کرنے جارہے ہیں۔
مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں رازداری اور شخصی آزادیوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیری عوام کی روزمرہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے پولیس کو GPS ٹریکر سے لیس کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اس منصوبے کے پیچھے ایک خوف کار فرما دکھائی دیتا ہے کہ مودی حکومت ہر کشمیری کوحریت پسند یا جدوجہد آزادی کے حامی کے طورپر دیکھتی اور پرکھتی ہے، اس لیے وہ مقبوضہ خطے میں اپنی پولیس کو GPS ٹریکر آلات فراہم کررہی ہے جو کشمیری عوام کی نگرانی اوران کی نقل وحرکت پر نظررکھنے کیلئے پولیس اہلکاروں کے ٹخنوں کے گرد پہنائے جاتے ہیں۔اس سسٹم کو فوری طور پرقانونی تحفظ فراہم بھی کیا گیا ہے، جیسا کہ قابض بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ یہ آلات بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی NIA کی خصوصی عدالت کے حکم کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں متعارف کرائے گئے ہیں۔
اس صورتحال میں ڈیجیٹل میڈیا اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو کشمیری عوام کی رازداری کے حقوق اور ذاتی آزادیوں کے تحفظ کیلئے آگے آنا چاہیے۔جس کی ضمانت انسانی حقوق کے عالمی منشور میں دی جاچکی ہے۔جس پر بھارت بھی دستخط کرچکا ہے۔البتہ جیسے ناجائز اسرائیلی ریاست محکوم اور بے و بس وبے کس فلسطینیوں کے مقابلے میں دنیا کے کسی قاعدے قانون کی پابند نہیں ہے بھارت بھی خود کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں سمجھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں لوگوں کی آزادی اظہار رائے کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی حقوق بھی بڑی ڈھٹائی سے پامال کیے جارہے ہیں اور کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ابھی حال ہی میں قابض بھارتی انتظامیہ نے جنوبی کشمیر کے شوپیاں میں سیرت النبی ۖاور اتحاد امت کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد نہیں ہونے دیا اور میر وعظ عمر فاروق سمیت دیگر مذہبی اور آزادی پسند رہنماوں کو اس میں شرکت سے روک دیا۔کانفرنس مقبوضہ وادی کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں کے علاقہ جمنگری میں منعقد ہونا تھی اور اس میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق، آغا سید حسن الموسوی، مقبوضہ جموں وکشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصرالاسلام ، مولانا مشتاق احمد ویری اوردیگر شخصیات مدعو تھیں۔ تاہم قابض انتظامیہ نے حسبہ سابقہ کانفرنس منعقد نہیں ہونے دی۔جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں کیا گل کھلا رہا ہے۔اب تو ملازمین کو بھی اپنے حقوق کے حصول کیلئے کسی بھی احتجاج یا مظاہروں سے روکنے کیلئے ان پر پابندیوں کے نام پر ایسے قوانین کا اطلاق عمل میں لایا گیا ہے جس کا مقصد ان کا گلہ گھونٹنا ہے۔
بھارتی حکمرانوں کی ان حرکات پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر یہاں سب اچھا ہے تو لوگوں سے آزادی کیوں چھینی گئی؟ محبوبہ مفتی نے کہا کہ سابق پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے حال ہی میں فخریہ طور پر اعلان کیا کہ جموں و کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں اوریہاں اب ٹارگٹڈ حملے ہورہے ہیں۔ جب کوئی پولیس اہلکار یا فوجی یا مزدور مارا جاتا ہے، تو یہ جانی نقصان نہیں تو کیا ہے؟ کوکرناگ اسلام آباد میں کیا ہوا؟ محبوبہ مفتی نے حیرت کا اظہار کیا کہ اگر جموں و کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے تو بھارت نے کشمیری عوام کی آزادی کیوں چھین رکھی ہے؟ آپ لوگوں کو بات کرنے کیوں نہیں دیتے؟اسرائیل فلسطین کے شہر غزہ میں بہت بڑا قتل عام کر رہا ہے اور مودی حکومت نے باضابطہ طور پرا حکامات جاری کیے ہیں کہ کشمیری ائمہ مساجدغزہ کے مظلوموں کیلئے دعابھی نہیں کر سکتے، آپ احتجاج نہیں کر سکتے۔ کشمیری عوام کی آزادی کو گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، اظہار رائے کی آزادی، احتجاج کی آزادی چھین لی گئی ہے اور اب نام نہاد گورنر انتظامیہ کی طرف سے ملازمین کو مظاہروں اور ہڑتالوں کی صورت میں تادیبی کارروائی کا انتباہ بدقسمتی ہے۔محبوبہ مفتی نے یہ بھی کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں سب اچھا ہے اور دوسری طرف آپ لوگوں کی آواز سے خوفزدہ ہیں۔ جب یہاں پانچ لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اگر ملازمین کو جی پی فنڈ، پراویڈنٹ فنڈ کے حوالے سے مسائل ہیں تو وہ آواز اٹھانا چاہیں گے، لیکن آپ نے اس پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟