جناب شیخ تجمل الاسلام کو ہم سے بچھڑے پورے تین برس ہوچکے ہیں۔یہ تین برس پلک جھپکنے میں گزرے کہ ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے یہ کل کی بات ہے۔ یہ جولائی 2021 کے آخری ایام تھے جب شیخ صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ٹیسٹ کرانے کے بعد پتہ چلا کہ وہ کرونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں حالانکہ وہ ویکسنیٹڈ تھے۔ لیکن اسقدر گمان نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ کیلئے ایک ایسے مقام پر چلے جائیں گے جہاں سے واپسی کے تمام دروازے تاصبح قیامت بند ہیں۔05 ستمبر 2021 بروز اتوار بعداز نماز مغرب وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ میں نے ان تین برسوں میں متعدد بار ان کیساتھ گزرے مہ وسال کو قلم بند کرناچاہا لیکن نہ جانے میرے قلب و ذہن پر ایک عجیب سا بوجھ محسوس ہوتا رہا جبکہ قلم بھی صفحہ قرطاس پر کچھ نہ لانے پر آمادہ کرتا رہا۔ میں نے شیخ صاحب کی تینوں برسیوں پر بھی شیخ صاحب کیساتھ گزرے حالات و واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کی مگر میں کچھ نہ لکھ سکا،حالانکہ میں ان کے بہت قریب رہا ہوں،شیخ صاحب سے ان گنت یادیں وابستہ ہیں۔میں نے زندگی کی نفاست،سیاسی،سماجی،معاشرتی اتار چڑھاو،نشیب و فراز اور نہ جانے کیا کیا پہلو ان سے نہیں سیکھے۔مگر پھر بھی الفاط کی تنگ دامنی کے ہاتھوں بے دست وپا ہوتا رہا۔جناب شیخ تجمل الاسلام کوئی عام انسان نہیں تھے بلکہ ان پر اللہ تعالی کی طرف سے خاص عنایات تھیں۔وہ بلا کے ذہین تھے اور اسی ذہانت نے انہیں ایک انقلابی شخص کی روپ میں ڈھالا تھا۔ وہ دیانت و امانت کا عملی نمونہ تھے اور انہیں اپنے پروفیشن کیساتھ جنون کی حد تک عشق تھا۔یہی جنون وہ دوسروں میں بھی منتقل کرنا چاہتے تھے۔ شیخ صاحب کی زندگی پر زمانہ طالب علمی سے ہی انقلابی اثرات نمایاں ہوچکے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی جمیعت طلبہ کیساتھ وابستہ ہوئے اور پھر اس طلبہ تنظیم کے ناظم اعلی بنے۔شیخ صاحب کہتے تھے کہ ان پر امام العصر اور عظیم مفکر سید ابوالاعلی مودودی کا لٹریچر پڑھنے کا جنون طاری تھا اور یہی جنون تھا کہ شیخ صاحب راتوں کو سید مودودی کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ شیخ صاحب جہاں سید مودودی کے سحر میں مبتلا تھے وہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے رجل عظیم جناب مولانا سعدالدین تارہ بلی سے بھی ان کی کچھ کم عقیدت نہیں تھی بلکہ وہ انہیں اپنا مرشد کہتے تھے جس کا اظہار ایک یا دو بار نہیں بلکہ بار بار مجھ ناچیز کے سامنے کرچکے تھے۔ انہوں نے1973تا 1980 تک سرینگر سے شائع ہونے والے اخبار اذان کے چیف ایڈیٹر اور کئی روزناموں’ ہفتہ وار اخبارات اور جرائد میں بطور مدیر کام کیا۔وہ 1975 تا 1984 تک سرینگر میں وکالت بھی کرتے رہے،شیخ تجمل الاسلام نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کے ایک پرجوش حامی ہونے کی پاداش میں شدید مصائب اور سختیاں برداشت کیں ۔
وہ 1974 اور 1984 کے درمیان کئی بار گرفتار کیے گئے،70کی دہائی میں دو اہم واقعات یعنی1971میں سقوط ڈھاکہ اور 1975میں اندرا عبداللہ معاہدے کے بعد بھارت نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ اب پاکستان کشمیری عوام کی بھر پور حمایت کے قابل نہیں رہا ۔ بھارت کے اس پروپیگنڈے نے اہل کشمیر کے حوصلوں پر منفی اثرات مرتب کیے اور اس سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں جمود کی کیفیت طاری ہو گئی جسے توڑنے کیلئے شیخ تجمل الاسلام نے 1982میں سرینگر میں بین الاقوامی کشمیر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ، اگرچہ بھارت نے بعد میں یہ کانفرنس نہیں ہونے دی مگر مذکورہ کانفرنس کی تیاریوں نے کشمیری عوام باالخصوص نوجوانوں میں آزادی کی ایک نئی تڑپ بیدار کردی۔اب شیخ تجمل الاسلام بھارت کی نظرو ں میں کھٹکنے لگے ، جب ان کے گرد شکنجہ کسا جانے لگا تو وہ نیپال منتقل ہو گئے ، نیپال میں انہوں نے کشمیرکاز کیلئے بھر پور کام کیا،کھٹمنڈو میں قیام کے دوران اسلامک سیوک سنگھ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جو اس وقت نیپال کی سب سے بڑی مسلم تنظیم ہے،نیپال میں قیام کے دوران انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹ آرگنائزیشنز (آئی آئی ایف ایس او) کے تحت جنوبی ایشیا میں مسلم سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے کوآرڈی نیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔شیخ تجمل الاسلام پاکستان ہجرت کے بعد 1998 سے 1999 تک پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوز سیکشن کیساتھ بطور مبصر وابستہ رہے۔ انہوں نے 1992 سے 2000 تک انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر افیرئرز کی سربراہی بھی کی ۔بعد ازاں وہ کشمیر میڈیا سروس کیساتھ بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر وابستہ ہو گئے اور اپنی آخری سانس تک اس ادارے کیساتھ منسلک رہے، وہ کشمیر انسائیٹ کے نام سے شائع ہونے والے انگریزی جریدے کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔شیخ تجمل الاسلام نے بین الاقوامی سطح پر اور پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرکے اپنی تقاریر میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی ریشہ دوانیوں ، مذموم بھارتی منصوبوں اور شاطرانہ چالوں کاپردہ چاک کرتے رہے ، ان کی دیانتداری اور دانشورانہ مہارت کی وجہ سے صحافتی حلقوں میں ان کی بڑی عزت وتوقیر کی جاتی تھی.سنہ2010 کے بعد شیخ صاحب کیساتھ ایک خاص تعلق قائم ہوا جبکہ سنہ 2000 میں بطور کشمیر میڈیا سروس KMS ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی باضابطہ طور پر ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد جناب عبدالعزیز ڈیگو نے مجھے شیخ صاحب سے متعارف کرایا جس کے بعد ہر گزرتے دن کیساتھ میرے دل میں ان کی عزت و تکریم اور محبت میں جہاں بے پناہ اضافہ ہوتا رہا وہیں ان کی لازوال شفقت مجھے میسر رہی۔شیخ صاحب بذات خود ایک ادارہ تھے اور انہوں نے مختصر عرصے میں کشمیر میڈیا سروس کی پوری دنیا میں ایک شناخت کروائی۔انہیں مذکورہ ادارہ بے حد عزیز تھا جس کی آبیاری آخری سانس تک کی اور واقفاں حال کا کہنا ہے کہ آخری لمحات میں بھی انہیں یہی فکر دامن گیر تھیں۔ شیخ صاحب جس انقلاب کو لیکر اٹھے پھر اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔وہ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کسی مخمصے اور تذبذب کے شکار نہیں بلکہ یکسو تھے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر غاصبانہ اور ناجائز بھارتی قبضے کے خاتمے کیلئے ایک ریاست گیر تحریک ناگزیر ہے۔ وہ جب بولتے تھے تو ان کے منہ سے جیسے پھول جڑھتے تھے۔انہیں اللہ تعالی نے ایک خاص ملکہ عطا کیا تھا۔انہیں مذہب ‘ سیاست ‘معاشرت،سماجیات گویا کہ وقت کی نبض پر ہاتھ تھا۔وہ اس قدر نبض شناس تھے کہ وہ پہلی ہی نظر میں انسان کے رگ و پے سے واقف ہوتے تھے۔ انہوں نے جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھایا تو کمال لکھا۔وہ زیادہ تر مسئلہ کشمیر پر تجزیہ لکھتے تھے۔میری آنکھوں نے کئی بار مقتدر حلقوں کو ان کے سامنے بڑی عاجزی سے بیٹھے دیکھا۔ بعدازں معلوم ہوتا تھا کہ انہیں فلاں موضوع پر تجزیہ درکار تھا جو انہیں جناب شیخ صاحب کے در پر حاضری کیلئے آنا پڑتا تھا۔شیخ صاحب انگریزی کیساتھ کھیلا کرتے تھے۔وہ ایک منبع تھے جہاں الفاظ رواں ہوجایا کرتے تھے۔ وہ گھنٹوں بولتے رہتے تھے لیکن نہ الفاظ ختم ہوتے تھے اور نہ ہی وہ اکتاہٹ محسوس کرتے تھے۔وہ ایک سمندر تھے جو کسی دریا میں گرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ بڑے بڑے دریا سمندر میں گرتے ہیں۔ان کے دفتر پہنچتے ہی لوگوں کی قطاریں لگی رہتی تھیں جو شام تک جاری رہتیں، لیکن نہ وہ کسی تھکان کے شکار ہوتے اور نہ ہی انہوں نے کبھی اپنے پیشہ وارانہ منصب کیساتھ کوئی سمجھوتہ کیا بلکہ ہر وقت تازہ دم نظر آتے تھے۔وہ بڑے ہی وضع دار انسان تھے۔جو اشخاص شیخ صاحب کی زندگی سے متعلق منفی رویوں کا اظہار کرتے تھے انہیں بھی گرمجوشی سے ملتے اور پورا پورا وقت دیتے تھے۔
میرے سینے میں بہت سارے راز امانت ہیں جن سے جناب شیخ صاحب نے مجھے ذاتی طور پر روشناس کرایا۔ کچھ ناعاقبت اندیش زندگی کے آخری ایام میں سید علی گیلانی سے متعلق انہیں غلط فہمیوں کا شکار کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کانوں کے کچے واقع نہیں ہوئے۔2021 کے اوائل میں سید صلاح الدین احمد کا ایک ویڈیو بیاں منظر عام پر آیا جس میں جناب سید نے کہا تھا کہ قاتل اور مقتول میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ شیخ صاحب کو برادر شیخ محمد امین نے مذکورہ ویڈیو بیان سینڈ کیا تو شیخ صاحب نے راقم کو بلاکر ہدایت کی تھی کہ شیخ امین صاحب سے کہیں کہ پیر صاحب کے ویڈیو بیان کو پھلائیں اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ صلاح الدین صاحب بڑے جرات کے مالک ہیں اور ایسا بیان ایک باجرت شخص ہی دے سکتا ہے۔ شیخ صاحب کبھی یکطرفہ فیصلہ کرنے یا سننے کے قائل نہیں تھے بلکہ ہمیشہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھ کر ہی فیصلہ کرتے تھے۔انہوں نے کبھی ڈسپلن پر سمجھوتہ نہیں کیا یہی ان کی کامیاب زندگی کا اصل راز تھا جس پر وہ کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ شیخ صاحب نے راقم سے اپنی زندگی کا ایک واقعہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ LLB کی تعلیم مکمل کرچکے تو دوسری صبح بطور وکیل عدالت جانا تھا۔شیخ صاحب کالا کوٹ پہن کر عدالت کیلئے روانہ ہونے لگے تو ان کے والد محترم صدر دروازے پر کھڑے بیٹے کا انتظار کررہے تھے۔جب شیخ صاحب والد محترم کے پاس پہنچے تو انہوں نے شیخ صاحب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا بیٹا اپنے پروفیشن کیساتھ وفا کرناجب آپ اپنے پروفیشن سے وفا کریں گے تو آپ کا پروفیشن آپ کیساتھ وفا کرے گا۔ بلاشبہ انہوں نے والد محترم کی نصیحت کو حرز جان بنالیا تھا۔
ماہنامہ کشمیر الیوم کے ایڈیٹرشیخ محمد امین کہتے ہیں کہ 1984 میں شیخ صاحب تازہ تازہ جیل سے رہا ہوچکے تھے تو وہ بطور ناظم اعلی اسلامی جمیعت طلبا شمالی کشمیر کے قصبہ ہندواڑہ تشریف لائے جہاں طلبا کی بڑی تعداد اجتماع میں شریک شیخ صاحب کا خطاب عام سننے کیلئے بے چین تھی۔خود شیخ امین صاحب بھی اجتماع کے سٹیج سیکرٹری تھے۔وہ کہتے ہیں کہ جب شیخ صاحب کا خطاب شروع ہوا تو پورے اجتماع پرگویا سکوت طاری تھا۔شیخ صاحب نے اپنا خطاب ان الفاظ سے شروع کیا کہ یہ جو بھارتی فوجی آس پاس کھڑے ہیں یہی قابض اور غاصب ہیں اور ان غاصبوں کے ناپاک قدموں سے سرزمین کشمیر کو پاک کرنا ہی ہماری زندگی کا اصل مقصد ہے۔بقول شیخ محمد امین ہم سوچ رہے تھے کہ شیخ صاحب کے یہ الفاظ ہوا کے دوش پر پہنچنے کی دیر ہوگی کہ اجتماع کو گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔مگر بھارتی فوجی منحوسوں کی طرح کھڑے رہے اور شیخ صاحب اپنا خطاب عام مکمل کرچکے تھے۔شیخ امین صاحب شیخ تجمل الاسلام کو سید علی گیلانی اور محمد اشرف خان صحرائی جیسے انقلابی گردانتے ہیں۔شیخ صاحب جہاں اسلامی انقلاب ایران سے بڑے متاثر تھے وہیں سید علی گیلانی اور جناب محمد اشرف خان صحرائی بھی اس انقلاب کو بطور امثال پیش کرتے تھے۔شیخ صاحب ایک انسائیکلو پیڈیا تھے ہی وہ مسئلہ کشمیر پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔پاکستانی وزارت خارجہ ان کے تجزیوں کو بڑی اہمیت دیتی تھی۔پاکستانی وزارت خارجہ کے منجھے ہوئے ترجمان جناب نفیس زکریا جنہوں نے بعدازں برطانیہ میں بطور سفیر خدمات بھی انجام دیں شیخ صاحب کے پاس دفتر آکرباضابطہ طورپر بریفنگ لینے آیا کرتے تھے۔شیخ صاحب نے 05اگست 2019 جب مودی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام تین حصوں جموں، کشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا پر ایک خصوصی اور طویل تجزیہ لکھا جس میں مودی اور RSS کی تاریخ بھی بیان کی گئی تھی۔اس تجزیہ کو باضابطہ پاکستان کے مقتدر حلقوں میں پالیسی سازی کا حصہ بنایا گیااور جناب عمران خان مودی اور RSS کی تاریخ کے بارے میں جب متواتر بیان کررہا تھا تو وہ شیخ صاحب کا ہی لکھا ہوا تجزیہ تھا۔نہ صرف کنٹرول لائن کی دونوں جانب پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ان کے بے شمار چاہنے والے آج بھی موجود ہیں جو ان کیساتھ گزرے اوقات کو یاد کرتے ہیں۔شیخ صاحب کی زندگی کا ہر پہلو ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ہر ورق ایک دوسرے کیساتھ مماثلت رکھتا ہے۔ایک آرٹیکل میں ان کی زندگی کا احاطہ تو دور کی بات تعارف بھی مشکل ہے۔
شیخ صاحب جیسی نابغہ روز گار شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں بلکہ صدیا ں بیت جاتی ہیں تب جاکر شیخ تجمل الاسلام جیسے مفکر اور دانشور جنم لیتے ہیں جو خود نہیں بلکہ زمانہ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خدا رحمت کنند ایں عاشقاں پاک طینت را