مقبوضہ جموں و کشمیر

بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے

بھارتی فورسز نے جنوری 1989سے اب تک 96ہزار 279کشمیری شہید کئے

2-60

اسلام آباد: آج جب دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا جابرانہ قبضہ جاری رکھا ہوا ہے اورکشمیریوں کے سیاسی حقوق سلب کررکھے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے آج انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 10دسمبر 1948 کو انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ بے شک ایک سنگ میل تھا لیکن کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔رپورٹ میں کہاگیا کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں درج 30بنیادی انسانی حقوق میں سے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ایک بھی موجود نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فورسز گزشتہ 7دہائیوں سے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی دھجیاں اڑا رہی ہیں اورحق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر امن اور آزادی سے محبت کرنے والے ہر عمر اور جنس کے کشمیری کو ظالمانہ طریقے سے قتل اور گرفتار کررہی ہیں اور، ہراساں،تشدد اور تذلیل کا نشانہ بنارہی ہیں۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ فوج، پیراملٹری اور پولیس سمیت بھارتی فورسز اپنی ریاستی دہشت گردی اور ظلم وبربریت کی کارروائیوں کے دوران جنوری1989سے اب تک 96ہزار279کشمیریوں کو شہید کر چکی ہیں جن میں سے 7,322کو دوران حراست اورجعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان شہادتوں سے 22,968خواتین بیوہ اور 107,941بچے یتیم ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں نے 11,259خواتین کی بے حرمتی کی اور 110,509رہائشی مکانات، دکانوں اور دیگر عمارتوں کومکمل طورپر تباہ کیا یا ان کونقصان پہنچایا۔رپورٹ میں کہاگیا کہ بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں نے اس عرصے کے دوران 8000سے زائد کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5اگست 2019کوبی جے پی کی ہندوتوا حکومت کی جانب سے جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں846کشمیریوں کو شہید کیا گیا ہے جن میں 17خواتین بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 129خواتین کی بے حرمتی بھی کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ قابض حکام نے اس عرصے کے دوران لوگوں کو سرینگر کی جامع مسجد اور عیدگاہ میں محرم اور عید میلاد النبی ۖکے جلوسوں اور نماز عید کے اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف اور غلام محمد بٹ سمیت حریت رہنما، کارکنان،نوجوان، صحافی، علمائے کرام اور انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز جھوٹے مقدمات میں مسلسل نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔ چارہزارزائد حریت رہنما اور کارکنان کالے قوانین کے تحت من گھڑت الزامات پر بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی مختلف جیلوں میں نظربند ہیں جنہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایاجارہا ہے ۔ان رہنمائوں اورکارکناں میں ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، مشتاق الاسلام، مولوی بشیر عرفانی، بلال صدیقی، ظفر اکبر بٹ، محمد یوسف فلاحی، امیر حمزہ، محمد رفیق گنائی، حیات احمد بٹ، عمر عادل ڈار، فیروز احمد خان، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، غلام محمد بٹ، نور محمد فیاض، فہیم رمضان، رفیق احمد شاہ، شوکت حکیم، ایڈووکیٹ زاہد علی، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، غلام قادر بٹ، شبیر احمد ڈار، فردوس احمد شاہ، جہانگیر غنی بٹ، سلیم نناجی، سجاد حسین گل، محمد یاسین بٹ، سرجان برکاتی، حسن فردوسی، عادل سراج زرگر، دائود زرگر، عروج احمد، اویس احمد، اعجاز احمد شیخ، برہان احمد صوفی، عرفان احمد خان، بلال احمد بٹ،انجینئر رشید اور صحافی آصف سلطان شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حکام نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق کو گھر میں نظر بند کر رکھا ہے اور انہیں جمعہ کی نماز ادا کرنے اور جلسوں سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری آگے آئے اور بھارت پر دبا ئوڈالے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اپنی ریاستی دہشت گردی بند کرے اور کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دے۔
دریں اثناء مختلف حریت رہنمائوں نے اپنے الگ الگ بیانات میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اپنی ٹیمیں علاقے میں بھیجیں۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button