بھارت میں رام مندر کے افتتاح کا معاملہ تنازعے میں بدل گیا
نئی دلی:بھارت میں رام مندر کے افتتاح کا معاملہ ایک تنازعے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ حزبِ اختلاف کی بیشتر جماعتیں جہاں افتتاحی تقریب اس کا بائیکاٹ کر رہی ہیں وہیں ہندو مذہب کے چاروں بڑے پیشواو¿ں (شنکر آچاریوں) نے بھی اس تقریب کی مخالفت اور اس میں عدم شرکت کا اعلان کیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی 22 جنوری کو یودھیا میں تعمیر ہونے والے رام مندر میں رام کی مورتی نصب کر کے اس کا افتتاح کریں گے۔ ہندو توا مودی حکومت نے اس کی بڑے پیمانے پر تیاری کی ہے اور اصل تقریب کے علاوہ بھی متعدد پروگراموں کا اعلان کیا ہے۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے بدھ کو ایک بیان جاری کر کے رام مندر کی افتتاحی تقریب کو حکمران’بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کا سیاسی منصوبہ قرار دے کر اس میںشرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ۔
حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں ترنمول کانگریس ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ وغیرہ نے بھی تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے 2019 میں بابری مسجد تنازے کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجدکی جگہ رام مندر کی تعمیر کی اجازت دی تھی ۔ بی جے پی نے ایودھیا میں رام مندر کے معاملے کو ہمیشہ اپنے انتخابی منشور میں شامل رکھا۔ ہندو توا جماعت نے ماضی میں بھی رام مندر کے معاملے سے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے اور چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخانات کے تناظر میں ایک بار پھر اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ پورا معاملہ سیاسی ہے جسکا کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ،رام مندر کی پوری تحریک ہی سیاسی تھی اور خود بی جے پی کے کئی بڑے رہنماو¿ں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔
ہندو مذہب کے چاروں بڑے مذہبی پیشواو¿ں نے، جنھیں شنکرآچاریہ کہا جاتا ہے مندر کے افتتاح کی تقریب میں عدم شر کت کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے اسے مذہبی کی بجائے سیاسی تقریب قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں رام کی مورتی کی تنصیب اور اس کے افتتاح نے ہندو مذہبی رہنماو¿ں کو بھی تقریب میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔