مقبوضہ کشمیر :بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں1989سے اب تک 96ہزار290سے زائد کشمیری شہید
اسلام آباد:بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں قتل و غارت، گرفتاریوں، گمشدگیوں اور پکڑ دھکڑ کی کارروائیاں جاری ہیں جن کا مقصد کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کو دباناہے ۔
کشمیر میڈیا سروس کی جانب سے آج جاری کی گئی ایک جامع رپورٹ میں مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر کواجاگر کیاگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق1989میں جموں وکشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف جاری جدوجہد آزادی کے دوران بھارتی قابض فورسز نے 96ہزار290سے زائدکشمیریوںکو شہید کردیا ہے ۔رپورٹ میں مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ریاستی دہشت گردی کاسلسلہ مسلسل جاری ہے اوربھارتی فوجیوں کی طر ف سے کشمیریوں کو مسلسل ظلم و تشدد، محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں، گھروں پر چھاپے اور خوف ودہشت کا نشانہ بناناروز کا ایک معمول بن چکا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد سے کشمیریوں کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جب مودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرکے اور مقبوضہ علاقے کا فوجی محاصرہ کرلیاتھا۔ بھارتی فوج کے محاصرے سے مقبوضہ جموں وکشمیر دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بن گئی ہے۔وادی کشمیر کے لو گوں کو سخت پابندیوں کا سامنا ہے ۔ رپورٹ میں سوال اٹھایاگیا ہے کہ کشمیریوں کوآخر کب تک ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ان کی مدد کی جائے کیونکہ کشمیریوں کو بھی ” جینے کا حق” حاصل ہے۔ کشمیریوں کی جانوں کے ضیاع پر دنیا خاموش کیوں ہے؟ کیا وہ باوقار زندگی گزارنے کا حق نہیں رکھتے؟”رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ کشمیریوں کی زندگیوں کو آر ایس ایس کی سرپرستی والی ہندوتوا حکومت نے جہنم بنا دیا ہے اور وہ مودی کی فسطائیت کا شکار ہیں کیونکہ مودی مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوتوا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے تمام کشمیری مسلمانوں کو قتل کرنا چاہتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور عالمی برادری کو مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کاظالمانہ قبضہ ختم کرانے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنا چاہیے اور واضح طور پر بتادینا چاہیے کہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔