ایسا قانون جو شریعت کے خلاف ہو ہمیں ہرگزمنظور نہیں:جمعیت علمائے ہند
نئی دہلی06فروری(کے ایم ایس) بھارت میں جمعیت علمائے ہند نے ریاست اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈکو نافذ کرنے کے ریاستی حکومت کے فیصلہ پرشدید ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ مسلمانوں کو کوئی ایسا قانون ہرگز منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے نئی دہلی میںجاری ایک بیان میں کہا کہ مسلمان ہر چیزسے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن ا پنی شریعت اوردین پرہرگز ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈکاجوبل منظورہواہے اس میں درج فہرست قبائل کو بھارتی آئین کی دفعہ 366کے باب 25کی ذیلی دفعہ 342کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے اوریہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ21کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔مولانا مدنی نے سوال اٹھایا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتاہے توآئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح دیکھاجائے تویکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتاہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر یہ یکساں سول کوڈہے توپھر شہریوں کے درمیان یہ امتیاز کیوں؟ انہوں نے کہا کہ ہماری لیگل ٹیم اس بل کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لے گی اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ کسی بھی مذہب کاماننے والااپنے مذہبی معاملات میں کسی طرح کی بے جامداخلت کو برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جیسے تکثیری ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے اپنے اپنے مذاہب، اعتقادات اورروایات پر عمل پیرا ہیں وہاں آج یکساں سول کوڈکا نفاذآئین میں شہریوں کودیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہاکہ سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولرآئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کاہے، کیونکہ بھارت ایک سیکولرملک ہے اوردستورمیں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کااپنا کوئی مذہب نہیں ہے، اس لئے یکساں سول کوڈمسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے جوملک کی یکجہتی اورسالمیت کے لئے بھی نقصاندہ ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے جو فیملی لاء ہیں وہ انسانوں بنائے ہوئے قانون نہیں ہیں، وہ قرآن مجید وحدیث سے ماخوذ ہیں، اس پر فقہی مباحث تو ہو سکتے ہیں، لیکن بنیادی باتوں پر ہمارے یہاں کوئی اختلاف نہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ یکساں سول کوڈکا نفاذ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اورمذہبی مسائل کھڑے کرکے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مسلسل خوف اورانتشارمیں مبتلارکھنا چاہتی ہیں لیکن مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے خوف اورانتشارمیں مبتلانہیں ہوناچاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں جب تک انصاف پسند لوگ باقی ہیں ،جمعیت علمائے ہند ان کو ساتھ لیکر ان طاقتوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی جو ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لئے نہ صرف ایک بڑاخطرہ ہے بلکہ سماج کو تعصب کی بنیادپر تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔