لداخ میں مظاہرین ماحولیات، اراضی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کررہے ہیں
لہہ: غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے لداخ خطے میں ہزاروں لوگ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے شدیدسردی میں احتجاج کر رہے ہیں اور بھارتی حکومت سے خطے کے ماحولیاتی تحفط اور زمین اور زراعت پر مقامی لوگوں کے اختیار کے لیے آئینی ضمانتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارت، پاکستان اور چین میں گھرے مقبوضہ جموں وکشمیرکے لداخ خطے کو سرحدی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور خشک سالی سے کم آبادی والے دیہات میں لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہورہی ہیں۔ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک لہہ قصبے میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کررہے ہیں۔وہ6مارچ سے جب سے احتجاج شروع ہوا، بھوک ہڑتال پر ہیں اورمنفی درجہ حرارت میں کھلے آسمان تلے صرف نمک اور پانی پر زندہ ہیں۔اپنے” ہمالیائی انسٹی ٹیوٹ آف الٹرنیٹیو لداخ” میں مسائل کے حل پر کام کرنے والے انجینئر وانگچک نے اپنے احتجاج کو” ماحولیاتی تحفظ کے لئے بھوک ہڑتال”قرار دیا ہے۔وانگچک نے لہہ میں احتجاجی مقام سے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ”ہم پہلے ہی موسمیاتی تباہی کا سامنا کر رہے ہیں اور اگر خطے میں بے لگام صنعتی ترقی اور فوجی نقل وحرکت پر نظر نہ رکھی گئی تو یہ گلیشیئرز اور پہاڑ تباہ ہو جائیں گے”۔لداخ کے ہزاروں گلیشیئر جن کی وجہ سے یہ خطہ دنیا کے پانی کے بڑے ذخائرمیں سے ایک ہے ، تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کی پانی کی فراہمی کو خطرہ ہے۔گلیشرز پگھلنے کا عمل مقامی آلودگی میں اضافے کی وجہ سے تیز ہوگیا ہے جس کی وجہ خطے میں بڑے پیمانے پر فوجیوں کی تعیناتی ہے۔2020میں بھارت اور چین کے درمیان تصادم کی وجہ سے اس میں مزید شدت آئی ہے۔ وانگچک نے کہا کہ لداخ کو ماحولیاتی تحفظ کی اشد ضرورت ہے ، یہ صرف مقامی نہیں بلکہ بین الاقوامی تباہی ہوگی کیونکہ ہمارے پہاڑ عظیم ہمالیائی سلسلے کا حصہ ہیں جس سے2ارب سے زیادہ لوگ اور متعدد ممالک جڑے ہوئے ہیں۔بھارت نے اگست 2019میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے لداخ کواسے الگ کر دیا تھا۔