بھارت: مودی حکومت کی طرف سے نئے فوجداری قوانین کے نفاذ پر ماہرین قانون کی کڑی تنقید
بنگلورو:
بھارت میں مودی حکومت کی طرف سے تین نئے فوجداری قوانین کے نفاذ پر ماہرین قانون نے کڑی تنقید کی ہے ۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ریاست کرناٹک کے دارلحکومت بنگلورو وکلا کے تین سرکردہ گروپوں انڈین ایسوسی ایشن آف لائرز، آل انڈیا لائرز ایسوسی ایشن فار جسٹس اور آل انڈیا لائرز یونین نے بنگلورو میں سٹی سول کورٹس کے سامنے جمع ہوکر ان کالے قوانین کے نفاذ کے خلاف احتجاج کیا۔ اس موقع پر مظاہرے میں شامل ایڈووکیٹ شرتھ نے کہاکہ یہ تینوں فوجداری قوانین بھارتی آئین کو تبدیل کرنے کی مودی حکومت کی سازش کا حصہ ہیں ۔انہوں نے کہاکہ بی جے پی ان قوانین کے ذریعے سنسکرت اور مانوسمرتی کے عناصر کو متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے، جس کا مقصد قدیم طرز عمل کی طرف لوٹنا ہے جو انسانیت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ایڈوکیٹ شرتھ نے مزید کہاکہ ان قوانین کے ذریعے خاص طور پرانسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنایاجائیگا جودلتوں سمیت اقلیتوں ، قبائلیوں، مزدوروں اور کسانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ جمہوری آوازوں کو دبانے کی ایک کوشش ہے۔ایڈووکیٹ اکمل پاشا نے نئے قوانین کے تحت نظربندی کی مدت میں اضافے پر تشویش ظاہر کی ۔ انہوں نے کہاکہ نئے قوانین کے تحت پولیس کسی بھی شخص کو 15دن کی بجائے 90دن تک حراست میں رکھ سکے گی جو کہ صراصر غیر آئینی ہے ۔احتجاج میں شامل دیگر وکلا کا کہنا تھاکہ مودی حکومت نئی فوجداری قوانین کے ذریعے ریاست کو ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرر ہی ہے ۔ ایڈوکیٹ میتری کرشنن نے ان قوانین کو "غیر جمہوری اور غیر آئینی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے کہاکہ نے ان قوانین میں ترمیم سے پہلے مودی حکومت متعلقہ فریقوں بشمول بار کونسلز اور وکلا تنظیموں کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی ۔انڈین ایسوسی ایشن آف لائرز کے جنرل سکریٹری مرلی دھر نے مودی حکومت کے آمرانہ طرز عمل پرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہاکہ حکومت اس سے قبل کمپنی قوانین اور لیبر قوانین میں بھی ترمیم کرچکی ہے ۔