بھارت

بھارت : مسلمان نوجوانوں کو پھنسانے کے لیے مندر کے پجاری نے خود ہی مورتی توڑدی

tempul

لکھنو:بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع سدھارتھ نگر میں ایک ہندو پجاری نے دو مسلمان نوجوانوں کو پھنسانے کے لیے خود ہی گنیش کی مورتی توڑدی اورالزام مسلمان نوجوانوں پر لگادیا۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق پجاری نے تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ مسلمان نوجوانوں کا اس کے ساتھ پہلے سے تنازعہ چل رہا تھا، اس لیے انہیں جھوٹے کیس میں پھنسانے کے لیے اس نے خود ہی مندر کی مورتی توڑ دی اور پولیس سے شکایت کر دی۔ 16جولائی کو کرچ رام نام کے ہندو پجاری نے ضلع کے علاقے کٹھیلاسمئے ماتا پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی جس میںمنان اور سونونامی مسلمان نوجوانوں پر تولیہوا گائوں میں واقع مندر میں رکھی گنیش کی مورتی توڑنے کا الزام لگایا۔پجاری نے نوجوانوں پر پوجا نہ کرنے دینے کی دھمکی دینے کا بھی الزام لگایا اورواقعے کو واضح طور پر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔پجاری نے یہ بھی الزام لگایا کہ جب ان کی بیوی نے اس دوران مداخلت کرنے کی کوشش کی تو دونوں نے اسے گھونسہ مار کر زمین پر گرادیا۔ مقامی پولیس ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی فوراً حرکت میں آئی اور دونوں مسلم نوجوان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ ان پر جان بوجھ کر ایک طبقے کے مذہب کی توہین کے ارادے سے عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے اور اس کی بے حرمتی کرنے کا الزام لگایا گیا۔ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس درویش کمارنے بتایا کہ معاملے کی سنگینی کو ذہن میں رکھ کرمعاملے کی تفتیش کے لیے مقامی پولیس اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی ایک ٹیم نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ اس دوران انہیں معلوم ہواکہ گنیش کی مورتی کو دو مسلمان نوجوانوں نے نہیں بلکہ خود پجاری نے توڑا تھا۔ پولیس نے واقعے کے عینی شاہد کئی بچوں کی گواہی لی۔ اس کے بعد پولیس نے پجاری سے پوچھ گچھ کی۔تفتیشی افسر درویش کمار کے مطابق تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ جب مورتی توڑی گئی تو وہاں 8سے 10سال کے تین سے چار بچے کھیل رہے تھے جنہوں نے بتایا کہ سادھو بابا نے خود مورتی توڑ دی۔اس کے بعد پولیس نے پجاری سے سختی سے پوچھ گچھ کی تو اس نے پولیس کو بتایا کہ دونوں مسلم نوجوانوںکا اس کے ساتھ پہلے سے ہی تنازعہ چل رہا تھا۔ اس لیے انہیں جھوٹے کیس میں پھنسانے کے لیے مورتی کو توڑا اورپولیس میں شکایت درج کرائی۔درویش کمار نے کہاکہ پجاری نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button