آسام: بنگلہ دیشی ہندوکو شہریت دینے پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی بی جے پی پر تنقید
گوہاٹی : بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والے ایک ہندو شخص کو متنازعہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کے تحت بھارتی شہریت دیے جانے کے بعد آسام میں حکمراں بی جے پی کوحزب اختلاف کی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کی سخت تنقیدکا سامنا ہے۔ ہند وشخص کو شہریت دینے کے اس اقدام نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ بی جے پی آسام کی مقامی برادریوں کے حقوق اور شناخت کو مجروح کر رہی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والا ہندو شخص دولون داس جو کہ اصل میں بنگلہ دیش کے ضلع سلہٹ سے ہے، 1988 سے جنوبی آسام کے بنگالی اکثریتی قصبے سلچر میں مقیم ہے۔ داس نے بھارتی شہریت کے لیے درخواست دے رکھی تھی جو حال ہی منظور کی گئی او ر یوں وہ آسام میں شہریت حاصل کرنے والا پہلا غیرملکی شخص بن گیا ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ نے دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے ان غیر مسلموں کو شہریت دی جاسکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت میں داخل ہوئے ہیں۔ آسام اور بھارت کی دیگر شمال مشرقی ریاستوں میںسی اے اے کیخلاف 2020 میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ آسام میں ان مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ سے کم از کم پانچ افرادہلاک ہوئے تھے۔
آسام میں اپوزیشن جماعتیں اور طلبہ تنظیمیں سی اے اے کی مخالفت میں آواز اٹھا رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ یہ قانون 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جس میں 24 مارچ 1971 کے بعد آسام میں داخل ہونے والے تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کا پتہ لگانے اور انہیں ملک بدر کرنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ معاہدہ چھ سالہ آسام ایجی ٹیشن (1979-1985) کا نتیجہ تھا۔ یہ ایک زبردست عوامی تحریک تھی جس کا مقصد مقامی آسامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔
آسام جاتیہ پریشد (اے جے پی) کے صدر لورین جیوتی گوگوئی نے کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو شہریت دینا آسام کے مقامی لوگوں کی شدید توہین ہے۔ انہوںنے کہا کہ بی جے پی اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور آسام کی ثقافتی اور آبادیاتی سالمیت کی قیمت پر ہندو تارکین وطن کو آباد کرکے ووٹ حاصل کرنے کے لیے سی اے اے کا استعمال کررہی ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور ایم ایل اے Debabrata Saikiaنے کہا کہ کانگریس کا مطالبہ ہے کہ آسام معاہدے کو مکمل طور پر لاگو کیا جائے تاکہ 1971 کے بعد کے تمام غیر ملکیوں کا پتہ لگا کر انہیں ملک بدر کیا جا سکے۔