سیّد علی شاہ گیلانی کو جدا ہوئے تین برس بیت چکے ہیں۔وہ ایک پرخار راستے کے مسافر تھے۔مگر دنیا کی کوئی بھی شے اور طاقت اس راہ نوردائے شوق کو منزل کی جانب پیش قدمی کرنے سے روک نہ سکی۔وہ انقلابی شخص جس نے بھارتی غرور او ر گھمنڈ کے جھیل میں پہلا کنکر پھینک کر ارتعاش پیدا کردیاتھا۔دنیا نے آہنی عزم کے مالک اس حق گو کے غیر متزلزل عزم میں موت کے مہیب سائے میں بھی کبھی کوئی کمزوری نہیں پائی۔
تیغوں کے سائے میں پلنے والے سیّد علی گیلانی نے کبھی مصلحت کی آڑ میں چھپنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ ہر بات ڈنکے کی چوٹ پہ کہنے کے عادی تھے۔
متضاد کرداروں کیلئے وہ ہمیشہ اسی آرزو اور عزم کا اظہار کرتے تھے۔
"درِرندان سے دیکھیںیا عروج دار سے دیکھیں
تمہیں رسوا سر بازار ہوتے ہوئے ہم بھی دیکھیں گے”
پھر زمانے نے دیکھا کہ 2019ء میں تاریخ نے بھارتی خرقہ پوشوں کیلئے رسوائی کا اتوار بازار لگایا۔جہاں ان کے لباس پر بے عزتی کے داغ اور رسوائی کے چھید ہی چھید تھے۔قدرت نے شاید یہی منظر دکھانے کیلئے سیّد علی گیلانی کی علالت اور قیدتنہائی کو اتنا طول دیا۔
گیلانی نے نہ صرف درزندان بلکہ عروج دار سے بھارتی خرقہ پوشوں کی رسوائی کا تماشا دیکھا۔
گیلانی ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن وہ ہمارے دلوں میں موجود ہیں۔وہ کشمیر کی گلی کوچوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔چاہے سرینگر کی گلیوں میں آزادی کے نعرے لگیں یا الیکشن کے وعدے وعیدہوں۔سیّد علی گیلانی کسی نہ کسی صورت، ہر گلی، ہر محلے ہر گائوں، ہر قصبے اور ہر شہر کا مو ضوع ہے۔سیّد علی گیلانی کشمیریوں کے دلوں کی آواز ہے اور اس آواز کو دبانے کی جتنی بھی کوشش کی جائے یہ اتنی ہی ابھر کر سامنے آئے گی۔
گیلانی ایک رول ماڈل ہیں۔جدوجہد کے آئیکون ہیں۔کشمیر کی دھرتی کو آج پھر سے سیّد علی گیلانی کی تلاش ہے۔ جموں وکشمیر میں قبرستان کی خاموشی اسی سیّد علی گیلانی کی راہ تک رہی ہے۔مقبوضہ جموں کشمیر کے سیاسی افق پر دیر یا سویر سیّد علی گیلانی کا سورج ضرورطلوع ہو کر آئے گا۔