بھارت

بھارتی مسلمانوں کے احتجاج پرعدالتیں دوہرا معیاراپنارہی ہیں

نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ کے معروف وکیل ایڈوکیٹ شاہ رخ عالم نے خاص طورپرمسلمانوں کے احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے دوہرا معیاراپنانے پر بھارت کے عدالتی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق شاہ رخ عالم نے نئی دہلی میں ”محددد آزادیاں:انصاف کا مذاق”کے عنوان سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ مسلمانوں کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کو کیوں قومی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جبکہ دیگر کمیونٹیز کے احتجاج کو اختلاف رائے کا جائز اظہار سمجھا جاتا ہے۔ شاہ رخ عالم نے دہلی میں 2020 کے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کاحوالہ دیا جہاں مسلمان نوجوانوں پر تشدد اور لوٹ مارکے جھوٹے الزامات لگائے گئے۔انہوں نے کہاکہ عدالت کی جانب سے حال ہی میں 11 نوجوانوں کو جھوٹے الزامات سے بری کیے جانے کے باوجود پولیس کی کارروائیوں کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔انہوں نے کہاکہ یہ مسلمانوں کے خلاف عدالتی نظام کے تعصب کی واضح مثال ہے۔انہوں نے اس تضاد پر بھی روشنی ڈالی کہ عدالتی مقدمات میں مسلمان ناموں کو کس طرح نمایاں کیا جاتا ہے جبکہ غیر مسلم ناموں کو چھپایا جاتا ہے۔ شاہ رخ عالم نے مذہبی تفریق پر بات کرتے ہوئے سوال اٹھایاکہ عدالتیں اور سول سوسائٹی غیر مسلموں کا نام لینے میں کیوں شرم محسوس کرتی ہے ؟انہوں نے کہاکہ جہاں سپریم کورٹ نے کولکتہ میں جونیئر ڈاکٹروں کے احتجاج کے حق کو تسلیم کیااور اسے قومی جذبات کی عکاسی قراردیا،مسلمانوں کے احتجاج کو اکثر قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ عالم نے واضح عدالتی معیارات طے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پوچھا کہ عدالتیں اس بات کا تعین کرتے وقت کون سا قانونی معیار لاگو کرتی ہیں کہ احتجاج قومی جذبات کی نمائندگی کرتا ہے یا اس پر دہشت گردی کی سازش کا لیبل لگایا جاتا ہے؟

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button