مقبوضہ جموں و کشمیر

میرواعظ کا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بامعنی مذاکرات پر زور

سرینگر: غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر کے حتمی حل کے لیے پاکستان کے ساتھ بامعنی مذاکراتی عمل شروع کرے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق میرواعظ عمرفاروق نے سرینگر میں ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے کے لیے جنگ نہیں بلکہ بات چیت اور باہمی افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔انہوں نے بھارت کی طرف سے کل جماعتی حریت کانفرنس کو ایک علیحدگی پسندتنظیم کا نام دیئے جانے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حریت مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے اور اس کی تمام تر توجہ تنازعہ کشمیر کو اس کے تاریخی تناظر میں حل کرنے پر مرکوز ہے۔انہوں نے کہا کہ دفعہ370کی منسوخی سے کشمیری عوام ڈیموگرافک انجینئرنگ، شناخت کھوجانے اور بے اختیار ہونے کے خطرات سے دوچارہے۔انہوں نے کہاکہ 2019کے ری آرگنائزیشن ایکٹ سے باہر کے لوگوں کو ڈومیسائل کے حقوق دے کریہ خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔میرواعظ نے کہاکہ دفعہ 370ایک آئینی عہدنامہ ہے جو بھارتی ریاست نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں سے ان کی زمینوں، وسائل اور ملازمتوں کے تحفظ کے لیے کررکھا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارتی حکومت کے امن کے دعوئوں کے باوجود لوگ خوف کی وجہ سے خاموش ہیں۔انہوں نے کہاکہ ظلم و جبر، گرفتاریوں اور میڈیاپر پابندیوں کے ظالمانہ اقدامات نے لوگوں کو محتاط رہنے پر مجبور کر دیا ہے جس سے خوف ودہشت کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ حریت اور مقامی سیاسی جماعتوں کا اپنا اپنا حلقہ اثر اور نقطہ نظر ہے اور وہ مل کر کام کر کے علاقے کو درپیش اہم مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ تاہم میرواعظ نے کہاکہ ذاتی مفادات پر عوامی کاز اور مفادات کو ترجیح دینی ہوگی ۔ میرواعظ نے کہاکہ امن کے حصول کے لیے زمینوں، وسائل اور ملازمتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا، نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا، خود اختیاری کی بحالی اور تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات ناگزیر ہیں۔ حریت رہنما نے کہاکہ انہیں اگست 2019سے گھر میں نظربند رکھا گیا اور مرکزی جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کا خطبہ دینے سے بھی روکا گیا۔ ان پابندیوں سے اس کی زندگی، کام اور سماجی اصلاحات کے پروگرام بری طرح متاثر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ سیاسی قیدیوں کو فوراً رہاکیاجائے، کالے قوانین کو منسوخ کیاجائے اور اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی کو یقینی بنایا جائے ۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button