پاکستان میں بھارت کی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے
اسلام آباد: بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ملک میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں سرگرم عمل ہے اور 2014میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ اس کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک واضح مثال ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق پاکستان میں دہشت گرد سرگرمیوں کی مالی معاونت، منصوبہ بندی اور ان کو انجام دینے کی بھارت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ پاکستان نے بارہا عالمی برادری کے سامنے ان سرگرمیوں کے ناقابل تردید ثبوت پیش کیے ، اس کے باوجود عالمی برادری خاموش ہے۔بھارت کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کرنا اس کے مذموم عزائم کو واضح کرتا ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے گھنائونا قتل عام کا منصوبہ جس میں اسکول کے معصوم بچوں اور عملے کو بے دردی سے شہید کیا گیا تھا، بھارت کے ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ(را) کی مالی اور اسٹریٹجک مدد سے ترتیب دیا گیا تھا۔ تحقیقات سے ٹی ٹی پی کے حملہ آوروں اور افغانستان میں بھارتی قونصل خانے کے درمیان واضح روابط کا انکشاف ہوا جس سے سانحے کی منصوبہ بندی میں” را ”کا کردار بے نقاب ہوگیا۔بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو جسے 2016 میں گرفتار کیا گیا، پاکستان کے خلاف تخریبی سرگرمیوں میں بھارت کے براہ راست ملوث ہونے کی ایک اور واضح مثال ہے۔ اس کے اعتراف نے جاسوسی، ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کے جال سے پردہ اٹھایا جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا تھا۔بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ہائبرڈ جنگ، میڈیا، سائبر ٹیکنالوجیز اور دہشت گردی کا استعمال کیا۔ انتہا پسند مودی حکومت کے تحت بھارتی سفارت خانے خفیہ کارروائیوں کے مرکز بن چکے ہیںجہاں جاسوس سفارتی آڑ میں کام کررہے ہیں۔ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی اور مجرمانہ کارروائیاں علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل جس کی منصوبہ بندی بھارتی ایجنٹوں نے کی تھی، بھارت کے ماورائے عدالت مجرمانہ اقدامات کی ایک اور تازہ مثال ہے۔عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خاموشی ترک کرے اور بھارت کو اس کے اقدامات پرجوابدہ ٹھہرائے۔ مودی کی قیادت میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا پھیلائو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ دنیا کو ان جارحانہ پالیسیوں کو روکنے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کرنی چاہیے۔