مقبوضہ جموں و کشمیر

آہ پروفیسر عبدالمجید ڈار

تحریر۔۔۔محمد شہبازshahbaz

پروفیسر عبدالمجید ڈار بھی خالق حقیقی سے جاملے،مقبوضہ کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام کے آری پانتھن بیروہ سے تعلق رکھنے والے عبد المجید ڈار ولد غلام قادر ڈار 1990ء کے اوائل میں آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کرگئے تھے،آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں ان کے بڑے بھائی عبدالاحد ڈار پہلے سے ہی مقیم تھے،جو 1990 ء میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔بڑے بھائی کی وفات کے بعد عبدالمجید ڈار مرحوم بھائی کے گھر پر ہی رہنے لگے کیونکہ بڑے بھائی کی کوئی اولاد نر ینہ نہیں بلکہ تین بیٹیاں تھیں ،اپنی یتیم بتیجیوں کے سر پر دست شفقت رکھنے کیلئے عبد المجید ڈار نے بھائی کے گھر کو ہی مسکن بنایا ۔

Hameed Dar

انہوں نے 1990 سے 1993 تک کشمیری مہاجرین کیلئے مخصوص ہسپتال کشمیر سرجیکل ہسپتال میں بطور انچارج اپنی خدمات انجام دیں،وہ سرینگر یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے،انہوں نے پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز کیا تھا۔1993 میں کشمیر سرجیکل ہسپتال کی نوکری کو خیر آباد کہہ کر وہ آزاد کشمیر پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے لیکچرار بھرتی ہوئے۔وہ مظفر آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں بطور مدرس اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔بہت سارے مہاجر بچے بھی ان کے شاگرد رہے ہیں۔وہ 2018ء میں کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے۔جس کے بعدانہیں ایک بڑے آپریشن سے بھی گزرنا پڑا۔وقتی طور پر وہ صحتیاب ہوئے لیکن مرض اندر ہی اندر بڑھتا گیا اور بالاآخر 18 دسمبر 2021 کی رات پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک معروف شفاء انٹر نیشنل ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے،وہ اس وقت ایسوسی ایٹ پروفیسر تھے۔وہ اپنے پیچھے ایک بیوہ اور چار بچوں کو پسماندگان میں چھوڑ کر گئے ہیں،بچوں میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہیں،ان کی نماز جنازہ آج مظفر آباد میں قائم یونیورسٹی کے احاطے میں 3 بجے ادا کی جارہی ہے۔13 دسمبر کی شام میں ان کی عیادت کیلئے شفاء ہسپتال گیا’ جہاں ان کی اہلیہ اور تینوں بیٹیاں ساتھ تھیں۔ڈار صاحب کے چہرے پر نظر پڑتے ہی میرے منہ سے بے ساختہ اللہ اکبر کے کلمات نکلے۔وہ بہت لاغر ہوچکے تھے۔میرے استفسار پر کہ ڈار صاحب بہت کمزور ہوچکے ہیں ۔کیا یہ کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں تو ان کی اہلیہ نے بتایا کہ بہت کم نہ ہونے کے برابر۔اس کے بعد ان کی اہلیہ انہیں جوس اور کھیر کھانے کیلئے آگے بڑھیں تو ڈار صاحب نے لینے سے انکار کیا۔جس کے بعد میں نے ڈار صاحب کو مخاطب کرکے سلام اور آواز دی ۔ڈار صاحب’تو انہوں نے میری آواز سن آنکھیں کھولیں۔مجھے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔میں نے میز پر پڑے ٹشو پیپر سے ان کے آنسو صاف کئے اور کچھ کھانے پر انہیں آمادہ کیا۔جس کے بعد انہوں نے ایک انڈا کھایا۔ انہوں نے کروٹ بدلنا چاہی اور میں کافی دیر تک ان کی کمر تھپتھپاتا رہا۔ساتھ ساتھ ہم باتیں بھی کرتے رہے اور اس دوران ڈار صاحب نے مجھے ایک جملہ کہا ۔شہباز ادخلوا فیی السلم کافة۔میں نے کہا جی ڈار صاحب۔ یعنی بستر مرگ پر بھی انہیں اسلامی اقدار کے ساتھ کس قدر وابستگی اور دلچسپی کا اظہار تھا۔ایسے گوہر نایاب آج آپنے آبائی علاقہ آری پانتھن بیروہ بڈگام سے سینکڑوں کلو میٹر دور مظفر آباد آزاد کشمیر کی مٹی میں دفن ہورہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا رحمت کنند این عاشقان پاک طینت را

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button