بابائے حریت سید علی گیلانی انتقال کر گئے
تحریک آزادی کشمیر کی توانا آواز ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی
سرینگر یکم ستمبر(کے ایم ایس)مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کی ایک انتہائی توانا آواز بابائے حریت سید علی گیلانی آج سرینگر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوج اور پولیس نے ان کے گھر کو جانے والے تمام راستے بند کر دئے ہیں اور ان کے جسد خاکی کو تحویل میں لے لیا ہے۔جبکہ سرینگر شہرسمیت تمام علاقوں میں کرفیونافذ کر دیا گیا ہے۔
قابض بھارتی انتظامیہ نے سید علی گیلانی کو گزشتہ12 برس سے سرینگر میں گھر میں مسلسل نظر بند کر رکھا تھاجسکی وجہ سے انکی صحت انتہائی گر چکی تھی ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سید علی گیلانی کی وفات سے کشمیریوں نے ایک ایسا رہنما کھو دیا ہے جن کے ساتھ سارے حتیٰ کہ مخالفین بھی محبت رکھتے تھے۔ مرحوم قائد نے ورثا میں کشمیری قوم کے ایک کروڑ چالس لاکھ افراد کے علاوہ دو بیٹے ، بیٹیاں اور پوتے پوتیاں چھوڑے ۔ سید عی گیلانی ایک اعلیٰ پائے کے مصنف اور مثالی خطیب تھے ۔مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈی پور ہ میں جھیل ولر کے کنارے آباد گائو ں Zoorimanzمیںپیدا ہونے والے سید علی گیلانی سات دہائیوں تک سیاست میں سرگرم رہے۔ وہ بھارتی قبضے سے کشمیرکی آزاد ی کیلئے انتھک جدوجہد کر تے رہے جس کی پاداش میں انہیں کم از کم 20برس تک بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میںقید رکھا گیا۔
مرحوم پاکستان کے ایک کٹر حمایتی تھے جنہوں نے اپنی زندگی کشمیر کاز اور کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خاتمے کے مطالبے کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ سید علی گیلانی کو اگرچہ بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑالیکن کشمیر کا زکے ساتھ انکی وابستگی میں کوئی آنچ نہیںآئی۔انکا ماننا تھا کہ جموںوکشمیر پر بھارت کا قبضہ قطعی طور پر غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہے اور کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ صرف اور صرف استصواب رائے کے ذریعے ہی کیا جاسکتاہے۔ سید علی گیلانی دل کی گہرائیوں سے پاکستان کے ساتھ محبت رکھتے تھے۔
27ستمبر 1929کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے ایک گائوں میں پیداہونے والے سید علی گیلانی نے ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی اور لاہور(پاکستان) کے اورینٹل کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1950میں کیا اور انہیں پہلی بار 1962میں قید کیا گیا۔ وہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ایک قد آور رہنما تھے اور کئی مرتبہ اس تنظیم کے امیر اور سیکرٹری جنرل رہے ۔ انہوں نے تحریک آزادی کو زور و شور سے آگے بڑھانے کیلئے 2003میں اپنی تنظیم ” تحریک حریت جموں وکشمیر ” کی بنیاد رکھی۔ انہیں کئی مرتبہ جموںوکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کارکن بھی منتخب کیا گیا لیکن جب کشمیری نوجوانوں نے بھارتی غلامی سے آزادی کیلئے مسلح جدوجہد شروع کی توانہوںنے 1990میںاسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ سید علی گیلانی عارضہ قلب میں مبتلا تھے جبکہ 2007میں انہیں گردوں کے کینسر کی بھی تشخیص ہوئی تھی۔ زندگی کے آخری مرحلے میں انہیں سانس کی د شواریوں کا سامنا تھا۔